Farooque Mahaimi

Farooque Mahaimi

About

فاروق خان مہائمی مصباحی ایک سنی مذہبی عالم دین ہیں، جنھوں دینی اور دنیاوی دونوں علوم حاصل کیے ہیں۔ چناں چہ اُنھوں نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی سے عالم، فاضل اور افتا کی ڈگری حاصل کی ہے۔ مدرسہ یوپی بورڈ سے منشی، مولوی، عالم اور کامل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اسکول سے میٹرک (Matric) اور انٹر میڈیٹ (Intermediate) پاس کرنے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی (MANUU) سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ مہائمی صاحب نے 6 سال تک دارالعلوم محبوب سبحانی، کرلا، ممبئی میں افتا اور تدریسی خدمات انجام دیں۔ اُس کے بعد پچھلے تین سال دعوت اسلامی کے مرکزی جامعہ، جامعۃ المدینہ فیضان کنزالایمان، ممبئی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور پچھلے ایک سال سے مولا علی ریسرچ سینٹر (زیر انتظام مینارہ مسجد ٹرسٹ) سے بھی جڑ گئے ہیں۔ الحمد للہ مہائمی صاحب نے اب تک 10 کتابوں پر کام کیا ہے، درجنوں مقالے اور سو سے زائد فتاوے صادر کر چکے ہیں۔ مولا تعالیٰ قبول فرمائے۔

مصنف کی کتابیں۔

Discover, Research, and Connect with Books

پندرہویں صدی میں پھیلی ہندوستانی فقہ و افتا کی مختصر تاریخ

Writer: Farooque Mahaimi

اس کتاب میں فقہ و افتا کی مختصر انداز میں تاریخ پیش کی گئی ہے

Ab watan mein kabhi jaaein ge to mehmaan hon ge.

Writer: Farooque Mahaimi

Is kitaab me hijrat tadpa dene wale jazbaat ko pesh kiya gaya hai.

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا۔

Writer: Farooque Mahaimi

طائف والوں کی زیادتیاں اور نبی ﷺ کا صبر و تحمل

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

Writer: Farooque Mahaimi

نبی کریم کے صبر و تحمل کی بے مثال نظیریں۔

خاطرے

Writer: Farooque Mahaimi

ذہن و دماغ پر چھا جانے والی فکر انگیز تحریر۔

مسلمانوں کی از سر نو تعمیر و ترقی

Writer: Farooque Mahaimi

موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کی از سر نو تعمیر و ترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی: ضرورت و پلان

Khatire

Writer: Farooque Mahaimi

Dil o dimag par cha jane wali fikri tehrir.

Shab jaay ke man bodam

Writer: Farooque Mahaimi

Yeh kitab is topic par hai ke kis tarah raton ko jag kar Muhaddiseen ilm-e-deen hasil karte the.

شب جائے کہ من بودم

Writer: Farooque Mahaimi

یہ کتاب اس موضوع پر ہے کہ کس طرح راتوں کو جاگ کر محدثین علم دین حاصل کرتے تھے

باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک

Writer: Farooque Mahaimi

بچوں کی تربیت میں باپ کا کیا کردار ہوتا ہے ، اس حوالے سے انتہائی دل کش کتاب۔

Baap ke tarbiyat karne ka anokha andaaz

Writer: Farooque Mahaimi

Apne Bachchun ki tarbiyat karne .e baap ka kya kirdaar hota hai. Is topic par bohat achchi mukhtasar kitab.

Baqui Bin Makhlad

Writer: Farooque Mahaimi

EK talib e ilm ka dil chasp waqia.

بقی بن مخلد اندلسی

Writer: Farooque Mahaimi

ایک محنتی طالب علم کی داستان

مصنف کے مضامین

Discover Insights and Knowledge Meet Our Authors

مفتی فاروق خاں مہائمی مصباحی کا ارمغان محبت!

مفتی فاروق خاں مہائمی مصباحی کا ارمغان محبت!

Mufti Farooq Khan Mahaimi Misbahi ka Armaghan-e-Muhabbat!Hindustan ek wasee o areez mulk hai. Is mein be-shumar auliya o sulaha aur aqtaab o abdaal aaraam farma hain. Yeh mubarak hastiyan is zameen ke upar bhi ahl-e-zameen ke liye ba'is-e-barkat aur manba-e-noor o hidayat theen aur parda farma jaane ke baad bhi ahl-e-aqeedat o muhabbat ke be-qarar dilon ka qarar hain. In mein bahut se majma-ul-bahrain thay. Maidan-e-ilm o ma'rifat ke shahsawar thay. Yeh jahan uloom-e-zahiri mein logon ki rahnumai karte thay wahin unki baatini kaifiyat ko bhi sanwara karte thay. In ke dar ki jabba-saai jis ke muqaddar mein aayi, uski bigri ban aayi aur jo unki nigah se gira, woh duniya o aakhirat mein kha'ib o khaasir thehra...Qutb-e-Konkan Hazrat Makhdoom Faqih Ali bin Ahmed Mahaimi Shafa'i rahimahullah (776H - 835H) aisi hi jaleel-ul-qadr aur saahib-e-shariat o tariqat hasti ke maalik thay. Aap ke halaat-e-zindagi par mushtamil mukhtasar risala "Zameer-ul-Insan" padhne se maloom hua ke Allah Pak ne aap ko "baala-e-sarash ze-hoshmandi - mee taaft sitara-e-bulandi" ka misdaaq banaya tha. Aap saahib-e-kashf o karamat wali hone ke saath mukhtalif uloom-e-zahiri par bhi kaamil dastaras rakhte thay jaisa ke aap ki tasanif se maloom hota hai.Hamare maazi qareeb ke aslaaf ke akhlaaf ya unke aqeedat-mandon ke yahan yeh rasm chal nikli hai ke apne aslaaf ke ilmi kaarnamon ko manzar-e-aam par laane ke bajaye unke araas muna'qid karke chadar o ghagar ke mele laga kar khoob aish o ishrat ki mehfil sajate hain ya phir zyada se zyada koi jalsa karke chand peshawar muqarrarin ke zariye "padram sultan bood" ke naare lagakar khush hojate hain. Wajah yahi hai ke is mein mehnat zyada lagti hai na zyada paisa. Aise be-dhangay mahaul mein "Maula Ali Research Center, Minara Masjid, Mumbai" ki taraf se Makhdoom Mahaimi ki tasanif ki isha'at baad-e-naseem ke thanday jhonkay se kam nahin hai.Makhdoom Mahaimi ki kutub par tehqeeq o takhreej aur tarjuma o ta'leeq ka fareeza mamdooh-e-girami Hazrat Allama Mufti Farooq Mahaimi Misbahi ne anjam diya hai. Kisi matan ki tehqeeq o tasheeh ka kaam kitna mushkil hai, iska andaza usi ko hai jisne is maidan mein jada-paimai ki ho. Baharhaal yeh kitabein jahan hamein Makhdoom Mahaimi ki seerat aur aap ki ilmi o roohani shakhsiyat ka ta'aruf karati hain wahin Mufti Sahab Qibla ke a'ala zauq-e-tehqeeq se bhi roshanas karti hain. Mufti Sahab baja taur par hamari taraf se shukriya ke mustahiq hain ke unhon ne Masjid Noman bin Sabit, Pali Hill, Jammu ki library ke liye yeh kitabein irsal karke hamein ek faqeeh aur wali-e-kaamil se mustafeez hone ka mauqa faraham kiya!Javed Iqbal AleemiImam o Khateeb Jamia Masjid Noman bin Sabit, Pali Hill, Jammu19/06/2025

Read More 0
عید الاضحیٰ

عید الاضحیٰ

عیدالاضحیٰعید کیا ہے؟ہمیں سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ عید کہتے کس کو ہیں،تو سنیے:عیدکا لفظ ’’عود ‘‘سے بنا ہے، عودکے معنی ہیں بار بار آنا ،کیوں کہ عید بار بار آتی ہے اور ہر سال عید منایا جاتا ہے اس لیے عید کو عید کہا جاتا ہے۔مسلمانوں میں دو طرح کی عید منائی جاتی ہے، ایک ’’عید الفطر‘‘ اور دوسری ’’عید الاضحیٰ‘‘۔’’عید الفطر‘‘ رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اسے کہتے ہیں اور دس ذوالحجہ کو جو عید منائی جاتی ہے ،جس میں قربانی کی جاتی ہے، اسے عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔چوں کہ اس دن قربانی کی جاتی ہےاورکے زیادہ تر گھروں میں بکروں کی قربانی ہوتی ہے ، اس لیے ہندوستان اور ان ملکوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہےاس عید کو ’’بکراعید‘‘ بھی کہتے ہیں۔’’عید الاضحیٰ‘‘ میں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک حج کرنا اور دوسری اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنا۔قربانی کیا ہے؟قربانی کا لفظ،’’ قربان‘‘ سے بنا ہے اور ’’قربان‘‘ قرب ‘‘سے ۔قرب کے معنی ہوتے ہیں نزدیکی۔اور اسلام میں قربانی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں نچھاور کرکے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔یعنی اگر کوئی خود کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کے لیے کوئی بھی چیز راہِ خدا میں خرچ کرے تو اسے قربانی کہا جائے گا۔ یعنی ہر مسلمان جب چاہے کوئی بھی چیز صدقہ کر کے قربانی یعنی اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔لیکن اسلام میں قربانی ایک خاص معنی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔اور وہ ہے دس ذوالحجہ کو اللہ کے نام سےکسی جانور کو قربان کیا جائے۔یہ قربانی بڑی اہمیت رکھتی ہے،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تین دن قربانی کرنے کے لیے خاص کر دیا ہے،۱۰-۱۱-۱۲ – ذوالحجہ۔ اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کو دوسری تمام عبادتوں سے زیادہ قربانی کا عمل پسند ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم ۳۰۰۰۰؍ہزار کا بکرا لانے کی بجائے ان روپیوں سے کسی غریب کی مدد کر دیں ،تو وہ اپنی سوچ میں بالکل غلطی پر ہے۔اس طرح کے صدقات کے لیے سال کےباقی دن ہیں ،ان دنوں میں اس طرح کا صدقہ کرنا بہت مفید ہے اور اجر وثواب کا باعث ہے۔ ان دنوں میں کسی جانور کی قربانی کرنا ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قربانی نہ کر کے اس کی رقم صدقہ کردے تو قربانی سےبری الذمہ نہیں ہوگا ،بلکہ اس پر قربانی واجب ہی رہے گی۔قربانی کی ابتدایوں تو قربانی کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل سے ہوئی تھی، اس کا مختصر قصہ یہ ہے افزائش نسل کے لیے ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے ہونا طے پایا تھا،چوں کہ قابیل کی بہن زیادہ خوب صورت تھی اس لیے قابیل کا دل اُس پر آ گیا، قابیل کے دل میں یہ لالچ پیدا ہوگئی کہ خود وہی اپنی بہن سے شادی کر لےاور ہابیل کی شادی اس سے نہ ہونے دے۔ یہ بات جب حضرت آدم علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو انھوں نے قابیلکو سمجھایا ،جب قابیل نہ ماناتواُن دونوں سے کہا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کروں جس کی قربانی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرلے قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔اس وقت قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کا جانور بیچ میدان میں رکھ دیا جاتا تھا،جس کی قربانی قبول ہوناہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی۔حضرت آدم علیہ السلام کے حکم پر ہابیل اور قابیل دونوں نے اپنی اپنی قربانی کا جانور میدان میں کھڑا کردیا،آسمان سے آگ اتری اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا، اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ہےاور قدرت نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے ہوگا، مگر قابیل کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی،حسد کی آگ اس کے دل میں جوش مارنے لگی جس کا انجام یہ ہوا کہ اس نے ہابیل کا قتل کردیا۔ یہ تھی روے زمین پر سب سے پہلی قربانی۔اور سب سے پہلا قتل بھی، جونفسانی شہوت کی وجہ سے پیش آئی۔مذہب اسلام میں دسویں ذوالحجہ کو جو قربانی کی جاتی ہےوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے ہیں: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۱۲۰؍ سال اور آپ کی بیوی کی عمر ۹۰؍ کی ہوگئی تھی، مگر ابھی تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔بڑی دعا اور گریہ و زاری کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں ایک نیک فرزند عطا فرمایا، جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے،لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئےکہ اللہ تبارک وتعالیٰان کے بیٹے اسماعیل کی قربانی چاہتا ہے۔ آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتاتے ہیں:’’ بیٹا میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں۔‘‘ سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام یہ سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ رب کی مشیت کیا ہے،لہذا اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں ۔’’ابا حضور اور اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو جو حکم دے رہا ہے آپ اسے کرگزریں ،ان شاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘اب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جاتے ہیں ذبح کرنے کے لیے، سنا آپ نے ؟ ایک باپ اپنے بیٹے کو صرف اور صرف رب کی رضا حاصل کرنے کے لیےذبح کرنے لے جارہا ہے،حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں:’’ابا حضور آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا چہرا دیکھ کرآپ کوترس آجائے،آپ کی محبت جاگ جائے اور آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکیں۔‘‘ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمربہت زیادہ نہیں ہوئی ہے،مگر باپ کا ادب کس طرح کر رہے ہیں،کہیں باپ رب تعالیٰ کے حضور رُسوا نہ ہوجائے، یہی سوچ کر خود ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ سوچنے کی بات ہےکہ کیا اطاعتِ والدین کی کوئی اور ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے : عیہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھیسکھائے کس نے اسماعیل کوآداب فرزندیآج ہمارا کیا حال ہے؟ہم اپنے والد کی ایک بات سننے کو تیار نہیں ہیں،اگر باپ کوئی نصیحت کرتا ہےتو چہرے ناراضگی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں،دوستوں سے تو ہنس بول کر رہتے ہیں، مگر والدین سے کٹے کٹے گھومتے ہیں،محض اس لیے کہ ان بیوی خوش رہے اپنے والد کو الٹا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں،کچھ تو والدین کو ڈانٹ دیتے ہیں،کچھ تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیں کہ انھیں مار بیٹھتے ہیں،کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو انھیں گھر سے بھی نکال دیتے ہیں۔ہائے افسوس!!! جن والدین کے سامنے ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے،ہمارا نوجوان طبقہ ان کے ساتھ کس قدر غیر مہذب برتاو کر رہا ہے۔ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعے سے سبق لینا چاہیے،اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر سال عید ہمیں اپنے والدین کی عظمت و رفعت کا پتہ بتانے آتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔خیر ،تو میں کہہ رہا تھا:حضرت اسماعیل علیہ السلام کے یہ کہنے کے بعد کہ ’’ابو آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیتے ہیں تاکہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس عظیم قربانی کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہ جائیں ، اُدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر چھری چلاتے ہیں ،اِدھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ جنت سے ایک دنبہ لے جاکر اسماعیل کی جگہ پر رکھ دو، چھری چلتی ہے مگر اسماعیل کے بدلے جنّتی دنبہ ذبح ہو جاتا ہے ، بےقرار باپ جب آنکھوں سے پٹی کھولتا ہے کہ دیکھیں اس کے بچے کا کیا حال ہوا،ا تو دیکھتے ہیں کہ اسماعیل دور کھڑے مسکرا رہے ہیں اور اورایک دنبہ ان کی جگہ پر ذبح ہو گیا ہے، رب تبارک و تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ہے کہ ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔اسلام میں حضرت اس ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کو برقرار رکھا گیا ہے اور دس ذوالحجہ کو ہر مسلمان جو عقل والا ہو اور ضرورت سے زیادہ اتنا مال رکھتا ہوں جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ جون 2025ء میں اگر کسی کے پاس 65 سے 70 ہزارر وپے یا اس کی مقدار کوئی چیز ہو جو حاجت اصلیہ سے یعنی ضرورت سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔قربانی کا پیغاماسلام میں جو بھی تہوار ہے ان میں غریبوں کی مدد کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے، دیکھیے رمضان میں لوگ زکاۃ دیتے ہیں ،صدقۂ فطردیتے ہیں؛ تاکہ غریبوں ،مسکینوں ، حاجت مندوں کی مدد ہوجائے اور وہ اپنے بال بچوں کے لیے کپڑے راشن وغیرہ خرید سکیں، اسی طرح عید الاضحیٰ یعنی بکرا عید کے موقع پر بھی اسلام نے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کی ہے؛ لہذا شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ جس جانور کی قربانی آپ کرتے ہیں، آپ اس کے تین حصے کریں، ایک حصے کو آپ خود رکھیں، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دیں، اور ایک حصہ غریبوں،مسکینوں کو دیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی پورا کا پورا گوشت خود رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے ، مگر بہتر ومستحب اور ثواب اس میں ہے کہ وہ تین حصے کرکے ایک حصہ خود اپنے لیے رکھے ،باقی دو حصوں کو وہ تقسیم کردے ،ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو اور ایک حصہ غریبوں مسکینوں کو۔ قربانی کا یہی پیغام ہےکہ قربانی کامفہوم ذہن میں رکھ کر اپنی پسندیدہ چیز راہِ خدا میں خرچ کرتا رہے،غریبوں کی مدد کرتا رہے، بے سہاروں کا سہارا بنتا رہے،یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتا رہے تاکہ اسے رب کا قرب حاصل ہوجائے ۔حج کیا ہے؟مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکۂ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت(مثلاً میدان عرفات میں قیام کرنا، خانۂ کعبہ کا طواف کرنا،صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا،شیطان کو کنکریاں مارنا،سر کے بال چھلانا وغیرہ) انجام دیتے ہیں، اس مجموعۂ عبادات کو حج کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ، زكاة دينا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:۸)یعنی حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے،حج مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی عبادت بھی ،یعنی حج میں مال بھی صرف ہوتا ہے اور بدن سے عبادت بھی کی جاتی ہے ۔جب کہ نماز وروزہ صرف جسمانی عبادت اور زکاۃ صرف مالی عبادت ہے۔حج پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے یعنی ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو، بالغ ہو، آزاد ہواور حج کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو،ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس اتنا مال بھی ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو،اوراس کی غیر موجودگی میں اس کے بال بچوں کی کفالت کے لیے بھی کافی ہو۔از قلم : فاروق خاں مہائمی مصباح

Read More 0
واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرامولانامحمدتوفیق پیلی بھیتیاولیاے کرام بشمول حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اُسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیا کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوث پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کے یہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے؟ہمارے یہاں معمول یہ ہے جب کبھی اِن بزرگان دین کے ایام منائے جاتے ہیں تو اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز اور اجتماعات میں ہمارا موضوع اکثر و بیشتر کرامات ہوتا ہے۔ کرامت سے کسی بھی ولی اللہ کا ایک گوشہ تو معلوم ہوتا ہے مگر یاد رکھ لیں کہ صرف کرامت کا نام ولایت نہیں اور ولایت صرف کرامت تک محدود و مقید نہیں۔ کرامت اولیاء اللہ کی زندگی میںBy Product کی سی حیثیت رکھتی ہے (یعنی ضمنی چیز)۔جیسے کوئی شخص شوگر انڈسٹری لگاتاہے تو شوگر (چینی)کو گنے سے بناتے ہوئے اس پروسز میں کئی چیزیں اور بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مقصود شوگر پیدا کرنا ہے مگر شوگر پیدا ہونے کے راستے میں کئی بائی پروڈکٹس بھی حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اپنے آپ جنم لیتی ہیں۔ اِن سے کماحقہ مستفید ہونے کے لیے بعض اوقات اس کی چھوٹی موٹی انڈسٹری بھی اضافی لگالی جاتی ہیں۔ بائی پروڈکٹس خود مقصود بالذات نہیں ہوتیں۔اسی طرح اولیا کی زندگیوں میں کرامات کی حیثیت بائی پروڈکٹس کی ہوتی ہے، یہ کرامات اُن کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو تو اس کے دائیں بائیں یقینا گرد ، کنکریاں، گھاس، پھوس بھی اڑے گی، بس اسی طرح اولیا کی تیز رفتار روحانی طاقت کے دوران دائیں بائیں جو کچھ اڑتا ہے وہ ان کی کرامتیں ہوتی ہیں۔ یہ کرامات ہمارے لیے تو بڑا معنی رکھتی ہیں مگر ان کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ولی اﷲان کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔اتنی طویل تمہیدکی ضرورت یہاں اس لیے پیش آئی کہ آج اکثرو بیشترلوگوں کوا ن کی کرامات کی ہی جانکاری ہوتی ہے ،انہیں معلوم نہیں کہ سرکارغوث پاک رضی اللہ عنہ اپنے وقت کی عظیم علمی شخصیت بھی تھے ، علم کے ایسے کوہ ہمالہ تھے کہ اپنے زمانے کے علوم وفنون کے بادشاہ ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے میں فخرمحسوس کیا کر تے تھے ۔ آئیے ذیل میں ہم حضرت غوث پاک کی حیات طیبہ کے حوالے سے مختصر ہی سہی چندباتیں عرض کرتے ہیں۔ابتدائی حالاتِ زندگی:حضرت غوث پاک کا پورا نام عبدالقادر بن ابو صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی)ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(سیر اعلام النبلاء:ج۲۰،ص۲۳۹) علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب ’’امامِ حنابلہ‘‘ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:ج۱،ص۲۹۱)آپ کا سلسلہ نسب حضر ت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ۳۷۱ ھ (اور بقولِ بعض ۳۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔جیلان کہاں ہے ؟ جیلان یا گیلان(کیلان)کو ویلم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین 'تالیس‘واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ (دائرۃ المعارف:ج۱۱،ص۶۲۱)علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔تعلیم و تربیت:شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مورخین نے بیان کی ہے کہ آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لیے بغداد روانہ ہوئے۔امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خودحضرت غوث پاک بیان کرتے ہیں کہ’’میں نے اپنی والدہ سے کہا:مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجیے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں:’’تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔‘‘(نفحات الانس: ص۵۸۷،از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف)شیوخ و تلامذہ:حافظ ذہبی نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن)باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش ، ابوطالب یوسفی وغیرہ(سِیَر:ج۲۰،ص۲۳۰)جب کہ کہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی ، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔( دائرۃ المعارف، اُردو: ج۱۱ ، ۶۳۰)علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے :ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ( ایضاً)حضورغوث پاک کی اولاد:امام ذہبی حضورغوث پاک کے صاحب زادے حضرت عبدالرزاق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:ولد لابی تسعۃ واربعون ولدا سبعۃ وعشرون ذکرا والباقی اناث (سیر:ج۲۰،ص۲۳۷)میرے والد کی کل اولاد۴۹ تھی جن میں۲۷بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔حضورغوث پاک کا حلقہ درس:سرکارنے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امرا و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہآپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔(البدایہ والنھایہ:ج۱۲،ص۲۵۲)امام ذہبی کے مطابق حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ ۹۰ سال حیات رہے اور ۱۰ ربیع الآخر۵۶۱ ھ کوخالق حقیقی سے جاملے ۔ (سیر:ج۲۰،ص۴۵۰)تالیفات و تصنیفات:حضرت شیخ جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنیادی طور پر ایک موثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مورّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہیے کہ مورخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ کہایہ جاتاہے کہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں ،باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔اس دعوی میں کہاں تک سچائی ہے ،واللہ اعلم بالصواب تاہم ،یہا ںان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیاجاتا ہے :(۱)غنیۃ الطالبین:اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے الغنیۃ لطالبی طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب کشف الظّنونمیں رقم طراز ہیں:الغنیۃ لطالبی طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلانی الحسنی المتوفی سنۃ ھ إحدی وستین وخمس مائۃ۔(ج۲،ص۱۲۱۱)غنیۃ الطالبین ،شیخ عبدالقادر جیلانی جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے ، انہی کی کتاب ہے۔حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:ج۱۲،ص۲۵۲) میں اسے تسلیم کیاہے ۔(۲)فتوح الغیب:یہ کتاب شیخ کے مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہشیخ عبدالقادر نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں۔(البدایہ ایضاً،کشف الظنون:ج۲،۲۴۰)(۳)الفتح الربانی والفیض الرحمانی:یہ کتاب حضورغوث پاک کے مختلف مواعظ پر مشتمل ہے اوریہ ان کی مستقل تصنیف ہے۔ (الاعلام: از زرکلی،ج۴،ص۴۷)(۴)الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والاوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مورخین نے اسے حضورغو ث پاک کی طرف منسوب کیا ہے مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔(۵) الاوراد القادریۃ:یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے۔اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :(۶)بشائر الخیرات (۷)تحفۃ المتقین وسبیل العارفین (۷) الرسالۃ القادریۃ (۸)حزب الرجا والا نتہاء (۹)الرسالۃ الغوثیۃ (۱۰) الکبریت الاحمرفی الصلاۃ علی النبی (۱۱)مراتب الوجود (۱۲)یواقیت الحکم (۱۳)معراج لطیف المعانی (۱۴)سرالاسرار ومظھرالانوارفیما یحتاج إلیہ الابرار(۱۵)جلاء الخاطر فی الباطن والظاہر(۱۶)آداب السلوک والتوصل إلی منازل الملوکحضور غوث الاعظم، ائمہ محدثین و فقہا کی نظر میں:یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدرائمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ حضور غوث الاعظم ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور۹۰سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال۳۰۰۰طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز:بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکرکے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف مجتہد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم کا فیض تھا۔امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ:امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی)حضور غوث الاعظم کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لیے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر۹۰برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں:سیدنا غوث الاعظم کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ سیدنا غوث الاعظم اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے۔امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ:محدثین اور ائمہ سیدنا غوث اعظم کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، (اس زمانے میں لاؤڈا سپیکر نہیں تھے)جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی ( اصول حدیث کے امام)جیسے ہزارہا محدثین، ائمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔سیدنا غوث الاعظم ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظم نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک نہ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیا میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سیدنا غوث الاعظم چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:الآن نرجع من القال إلی الحال یعنی اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں۔جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے۔اسی طرح بے شماراساطین علم وفن ہیں جنہوںنے سیدناغوث پاک سے اکتساب کیاہے ۔اللہ پاک ہم سب کوحضورغوث پاک کاصدقہ عنایت فرمائے ۔آمین

Read More 0
تجارت میں برکت ہے

تجارت میں برکت ہے

تجارت میں برکت ہے از:محمد ظہیر احمد بلگامی اسلام نے اُخروی کامیابی کے لیے جہاں اپنے خالق ومعبود کی عبادت وپرستش کا شعور بخشا ہے وہیں دنیاوی ترقی وخوش حالی کی خاطر کسبِ معاش کا بھی احساس عطا کیا ہے جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: فَاِذَاقُضِیَتِ الصَّلٰوۃُفَانْتَشِرُوْافِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ۔ (پ: ۲۸، سورۂ جمعہ: آیت؍ ۰ا) ترجمہ: پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ (کنز الایمان) تجارت میں خیرکثیرہے. مذکورہ آیتِ مقدسہ میں بندگی کے بعد حصولِ معاش کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور یہ آیتِ شریفہ صنعت وحرفت، زراعت وتجارت وغیرہ طلبِ رزق کے جملہ وسائل وذرائع کو شامل ہے لیکن کسبِ حلال میں خیرِ کثیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت تجارت کو حاصل ہے جیسا کہ ہادیِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے ’’برکت کے حصوں میں سے نو حصے تجارت میں ہیں ‘ ‘( کیمیا ئے سعادت) نیز فرمایا کہ امانت دار اور راست باز تاجر نبیین، صدیقین، شہدا اور صالحین کی صف میں ہوگا ۔(بخاری ومسلم) ذکر کردہ دونوں حدیثوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ تجارت، دولت کی فراوانی اور رحمتوں اور برکتوں کی فراہمی کا راز اور مقربین و محبوبینِ بارگاہِ الٰہی کی قربت ومعیت کا سبب ہے جو خوشنودیِ باری تعالیٰ کی عظیم دلیل اور نجات ومغفرت کی کامل ضمانت ہے۔ انبیاے کرام کی سنت اگر ہم اسلامی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ حقیقت خوب آشکار ہوجائے گی کہ وجودِ انسانی کی اصل حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جانِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک تمام رسلانِ عظام و انبیاے کرام علیہم السلام اپنی محنت ومشقت اور کدو کاوش ہی کی بدولت روزی حاصل کرتے تھے مثلاً حضرت آدم علیہ السلام زراعت وکاشت کاری کیا کرتے تھے، حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سلا کرتے، حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرایا کرتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بنا کر بیچتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بوریاں اور ٹوکریاں فروخت کیا کرتے تھے اور تاجدارِ عرب وعجم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابتدا میں بکریاں چرائیں پھر تجارت کی غرض سے یمن وشام کا سفر اختیار کیا۔ صحابۂ کرام کی سنت اسی طرح اگر اصحابِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تجارت کیا کرتے تھے مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے وقت کے بہت بڑے اور نہایت مشہور تاجر تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کپڑا اور دودھ فروخت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ پوری تاریخِ اسلام ایسے معزز افراد کی سیرتِ مقدسہ سے لبریز اور ان کے تجارتی نقوش سے جگمگارہی ہے لیکن صد حیف کہ آج مسلم طبقہ تجارت کو نہ صرف بنظر حقارت دیکھ رہا ہے بلکہ ا س سے کوسوں دور ہوچکا ہے پھر تجارت ہی کی کیا تخصیص؟ ہر اس کام سے دامن چراتا ہے جس میں محنت ومشقت اور جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے محض آرام طلبی وعیش پسندی اس کا مطمح نظر اور طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا مثالی عروج روبہ زوال اور ہمارا خوش حال وترقی یافتہ مسلم معاشرہ معاشرتی بدحالی اور اقتصادی زبوں حالی کی بندشوں میں گرفتار ہے اور مسلمانوں کو محنت کی زحمت گوارا نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی غربت وافلاس کی شکایتوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ۔ان اسلامی بھائیوں سے ہی عرض ہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا؟ ضربِ مرداں سے اُگل دیتا ہے پتھر پانی اور محنت سے نفرت وعداوت اور سستی وکاہلی سے محبت رکھنے والے بعض مسلمان غیروںکی ترقیوں اور کامیابیوں کو دیکھ کر حسرت و یا س کے شکار ہوجاتے ہیں اے کاش! انہیں یہ درس یاد ہوتا کہ من جد وجد (جس نے کوشش کی اس نے پایا) اور یہ پیغام انہوں نے فراموش نہ کیا ہوتا کہ اپنے ہاتھوں سے بنا تو بھی کوئی قصرِ عظیم چشمِ حسرت سے کسی محل کی تعمیر نہ دیکھ بے برکتی کاسبب آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو میدانِ عمل وتجارت میں اتاردیں اور محنت ومشقت کو اپنی عادت بنالیں اور جو مسلمان مالی اعتبار سے کمزور ومجبور ہوں ان کی مدد واعانت کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی وخیر خواہی کا برتاؤ رکھیں اور معاشی اعتبار سے مستحکم ومضبوط بنانے میں کوشاں رہیں تاکہ خود رحمت ونصرتِ خداوندی کے حقدار بنیں کیوںکہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَاکَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہ،ِ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارا کھویا ہوا تشخص دوبارہ پھر قائم ہوسکتا ہے اور ہمارا رکا ہوا کارواں ایک بار پھر بدستور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوسکتا ہے لیکن یاد رکھیں! حصولِ رزق اور کسبِ معاش وطلبِ مال کی وہ راہیں اختیار نہ کی جائیں جو موجبِ لعنت اور سببِ ملامت ہوں مثلاً کذب بیانیکہ آج عموماً تاجر اپنی تجارت کو فروغ دینے کی خاطر کذب بیانی کا سہارا لیتے ہیں اورمبیع (فروخت کی جانے والی چیز)کی جھوٹی جھوٹی تعریفیں کرکے اور اس کی بے جا اہمیت وافادیت ذکر کرکے زیادہ قیمت کے حصول کے درپے ہوتے ہیں جو شرعاً حرام وگناہ اور بے برکتی کا سبب ہے۔ دھوکہ دہی: یہ عملِ بدبھی ان کی تجارت کا ایک جزوِ لازم بن چکا ہے کہ خریداروں سے میٹھی میٹھی باتیں کرکے اور جھوٹی قسمیں کھاکھا کے اپنے دامِ فریب میں پھانس لیتے، ناپ تول اور پیمائش میں بھی کمی کرکے بیشتر لوگوںکو دھوکہ دیتے ہیں اور دل ہی دل میں اپنی اس نازیبا حرکت پر خوش بھی ہوتے ہیں اور انہیں اس کی بالکل فکر نہیں ہوتی کہ آیا کہ طریقۂ تجارت از روئے شرع جائز بھی ہے یا نہیں؟ منفعت کے علاوہ اور کسی چیز کی طرف قطعاً توجہ نہیں ہوتی ۔نہ نمازوں کا کچھ خیال ہوتا ہے اور نہ ہی گناہوں کا ملال، ان کی اس حالتِ زار اور عادتِ بد کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ ع شرم نبی،خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ذیل میں کچھ ایسی احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں مذکورہ برائیوں کے مرتکب تاجروں کے لیے عبرت ہی عبرت ہے۔ رسولِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: تُجار قیامت کے دن فجار (بدکار) اٹھائے جائیں گے مگر جو تاجر متقی ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے۔ (ترمذی : کتاب البیوع، باب ماجاء فی التجار) رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: تجار بدکار ہیں لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ!( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا اللہ تعالیٰ نے بیع حلال نہیں کی ہے؟ فرمایا: ہاں بیع حلال ہے لیکن یہ لوگ بات کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں اس میں وہ جھوٹے ہوتے ہیں (سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ)۔ تجارت میں قسم کھانا حضور ِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :بیع میں حلف کی کثرت سے پرہیز کرو کہ اگرچہ یہ چیز کو بکوا دیتا ہے مگر برکت کو مٹا دیتا ہے۔ (مسلم شریف کتاب المساقاۃ باب النہی عن الحلف فی البیع) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو تکلیف دہ عذاب ہوگا۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرض کی یارسول اللہ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ خائب وخاسر کون لوگ ہیں؟۔ فرمایا (۱)کپڑا لٹکانے والا (۲)دے کر احسان جتانے والا (۳)اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلانے والا۔ (مسلم شریف :کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار الخ) مذکورہ بالا روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی تجارت اختیار کی جائے جو اسلامی اصول کے عین مطابق ہوتا کہ دنیاوی کامرانی کے ساتھ اخروی شادمانی بھی میسر ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ترقی کے جذبے سے سرشار ہوکر حلال وحرام اور جائز وناجائز کے فرق وامتیاز کو بھول جائیں اور اس کے تمام تر تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر عتابِ خداوندی کے مستحق ٹھہریں۔ العیاذ باللہ تعالیٰ {۔۔۔۔۔۔}

Read More 13

مصنف کے سوال و جواب

Link copied to clipboard!