Feedback submitted successfully!

About

Farooque Mahaimi

Farooque Mahaimi
Writer's Books
Discover, Research, and Connect with Books
Writer's Articles
Discover Insights and Knowledge Meet Our Authors
دنیا کا پوشیدہ پہیہ

دنیا کا پوشیدہ پہیہ

کردار:   مہائمی صاحب (دانشمند باپ) علی (7 سالہ بیٹا، تجسس بھرا) امِ علی (نرم دل ماں) راوی (پس منظر بیان کرنے والا)     ---   منظر 1: شام کا کمرہ   راوی: کمرے میں کتابوں کی خوشبو تھی، مہائمی صاحب ایک موٹی سی کتاب پڑھ رہے تھے۔ علی صوفے پر بیٹھا ٹیبلٹ پر گیم کھیل رہا تھا۔ اچانک وہ رک گیا اور ابو کی طرف دیکھنے لگا۔   علی:  ابو… ایک سوال پوچھوں؟   مہائمی صاحب: پوچھو بیٹا۔   علی: یہ دنیا کون چلا رہا ہے؟   راوی: مہائمی صاحب مسکرائے، کتاب بند کی اور علی کو پاس بٹھایا۔   مہائمی صاحب: بیٹا، دنیا کا اصل چلانے والا تو اللہ ہے… مگر دنیاوی طور پر طاقتور ملک، بڑے ادارے اور کمپنیاں دنیا کا پہیہ چلاتی ہیں۔   علی: کون سی کمپنیاں ابو؟   مہائمی صاحب: گوگل، یوٹیوب، ایمازون… یہ صرف چیزیں بیچتی نہیں، بلکہ ہماری زندگی کو قابو میں رکھتی ہیں۔   علی (حیرت سے): لیکن لوگ ان کی بات کیوں مانتے ہیں؟   مہائمی صاحب: کیوں کہ ان کے پاس پیسہ، طاقت اور سب سے بڑھ کر ہمارے بارے میں معلومات ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ہمیں کون سی چیز پسند ہے اور کس چیز پر ہم وقت ضائع کریں گے۔     ---   منظر 2: الگورتھمز کا راز   راوی: مہائمی صاحب نے علی کے کان میں سرگوشی کی، جیسے کوئی بڑا راز بتا رہے ہوں۔   مہائمی صاحب: یہ سب جادوگر نہیں بیٹا، بلکہ یہ الگورتھم استعمال کرتے ہیں۔   علی: الگورتھم؟ وہ کیا ہوتا ہے ابو؟   مہائمی صاحب: جیسے تمہاری ماں کھانے کی ترکیب بناتی ہیں کہ کھانے میں کون سی چیز کتنی اور کب ڈالنی ہے ، بالکل اسی طرح الگورتھم بھی ترکیب ہے، مگر کمپیوٹر کے لیے۔ وہ کمپیوٹر کو بتاتا ہے کہ تمہیں کیا دکھانا ہے۔   علی: یعنی جب میں کارٹون دیکھتا ہوں تو یوٹیوب یاد رکھتا ہے؟   مہائمی صاحب: ہاں، اور اگلی بار تمہیں وہی دکھاتا ہے تاکہ تم زیادہ دیر دیکھتے رہو۔     ---   منظر 3: رشتوں کی دوری   راوی: مہائمی صاحب کے چہرے پر سنجیدگی آگئی، انہوں نے کتاب میز پر رکھ دی۔   مہائمی صاحب: بیٹا، یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔   علی: کیسے ابو؟   مہائمی صاحب: جب بیٹا گھنٹوں فون پر رہتا ہے تو ابو سے بات کم ہو جاتی ہے۔ بیٹی سوشل میڈیا میں مصروف رہتی ہے تو امی کے ساتھ کچن میں بیٹھنے کا وقت نہیں ملتا۔ اور جب شوہر اور بیوی دونوں فون میں گم ہوں تو ایک دوسرے کو سننا بھول جاتے ہیں۔   امِ علی (کچن سے آتے ہوئے): ہاں علی، پچھلے ہفتے کھانے پر سب فون دیکھ رہے تھے، کسی نے بات ہی نہیں کی۔   راوی: کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ علی نے آہستہ آہستہ اپنا ٹیبلٹ میز پر رکھ دیا۔     ---   منظر 4: حل اور عزم   مہائمی صاحب (نرمی سے): بیٹا، الگورتھمز کو ہم ختم نہیں کر سکتے، لیکن ان کے غلام بننے سے بچ سکتے ہیں۔ آج سے ایک اصول بنائیں گے — کھانے کے میز پر ہم فون نہیں لائیں گے، اور ہر ہفتے ایک دن صرف گھر والوں کے لیے ہوگا۔   علی (خوش ہو کر): واہ ابو! تو ہم ان الگورتھمز کے ماسٹر بن سکتے ہیں؟   مہائمی صاحب (مسکرا کر): ہاں بیٹا، جو انسان اپنے وقت اور دماغ پر قابو رکھ لے، وہ دنیا کے پہیے کا مالک ہے۔   راوی: اس رات کھانے کی میز سب نے کچھ خاص محسوس کیا ۔ اور علی نے پہلی بار باہر جا کر ستاروں کو دیکھا۔ وہ پہلے سے زیادہ روشن لگ رہے تھے — جیسے کہہ رہے ہوں:   "جو اپنے رشتے بچا لے، وہی اصل فاتح ہے۔"

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
عید الاضحیٰ

عید الاضحیٰ

  عیدالاضحیٰ عید کیا ہے؟ ہمیں سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ عید کہتے کس کو ہیں،تو سنیے: عیدکا لفظ ’’عود ‘‘سے بنا ہے، عودکے معنی ہیں بار بار آنا ،کیوں کہ عید  بار بار آتی ہے اور ہر سال عید منایا جاتا  ہے اس لیے عید کو عید کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں دو طرح کی عید منائی جاتی ہے، ایک ’’عید الفطر‘‘  اور دوسری ’’عید الاضحیٰ‘‘۔ ’’عید الفطر‘‘ رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اسے کہتے ہیں اور دس ذوالحجہ کو جو عید منائی جاتی ہے ،جس میں قربانی کی جاتی ہے، اسے عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔چوں کہ اس دن قربانی کی جاتی ہےاورکے زیادہ تر گھروں  میں بکروں  کی قربانی ہوتی ہے ، اس لیے ہندوستان   اور ان ملکوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہےاس عید کو  ’’بکراعید‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ’’عید الاضحیٰ‘‘ میں دو چیزیں ہوتی  ہیں ایک حج  کرنا اور دوسری اللہ  کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنا۔ قربانی کیا ہے؟ قربانی کا لفظ،’’ قربان‘‘ سے بنا ہے اور ’’قربان‘‘ قرب ‘‘سے ۔قرب کے معنی ہوتے ہیں نزدیکی۔اور اسلام میں قربانی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں نچھاور کرکے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ یعنی اگر کوئی خود کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کے لیے کوئی  بھی چیز  راہِ خدا میں خرچ کرے تو اسے قربانی کہا جائے گا۔ یعنی ہر مسلمان جب چاہے کوئی بھی چیز صدقہ کر کے قربانی  یعنی اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی ایک خاص معنی کے لیے  بھی بولا جاتا ہے۔اور وہ ہے دس ذوالحجہ کو اللہ کے نام  سےکسی جانور کو قربان کیا جائے۔یہ قربانی بڑی اہمیت رکھتی ہے،اس کا  اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تین دن قربانی کرنے کے لیے خاص کر دیا ہے،۱۰-۱۱-۱۲ – ذوالحجہ۔ اور ان دنوں میں  اللہ تعالیٰ کو دوسری تمام عبادتوں سے زیادہ قربانی کا عمل پسند ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم  ۳۰۰۰۰؍ہزار کا بکرا لانے کی بجائے ان روپیوں سے کسی غریب کی مدد کر دیں ،تو وہ اپنی سوچ میں بالکل غلطی پر ہے۔اس طرح کے صدقات کے لیے سال  کےباقی دن ہیں ،ان دنوں میں اس طرح کا صدقہ کرنا بہت مفید ہے اور اجر وثواب کا باعث ہے۔ ان دنوں میں کسی جانور کی قربانی کرنا ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قربانی نہ کر کے اس کی رقم صدقہ کردے تو قربانی سےبری الذمہ نہیں ہوگا ،بلکہ  اس پر قربانی واجب ہی رہے گی۔ قربانی کی ابتدا یوں تو قربانی کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل سے ہوئی تھی، اس کا مختصر قصہ یہ ہے افزائش نسل کے لیے ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے ہونا طے پایا تھا،چوں کہ قابیل کی بہن زیادہ خوب صورت تھی اس لیے قابیل کا دل اُس پر آ گیا، قابیل کے دل میں یہ لالچ پیدا ہوگئی کہ خود وہی اپنی بہن سے شادی کر لےاور ہابیل کی شادی اس  سے  نہ ہونے دے۔ یہ بات جب حضرت آدم علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو انھوں نے  قابیلکو سمجھایا ،جب قابیل نہ ماناتواُن  دونوں سے کہا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کروں جس کی قربانی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرلے قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ اس وقت قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کا جانور بیچ میدان میں رکھ دیا جاتا تھا،جس کی قربانی قبول ہوناہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے حکم پر ہابیل اور قابیل دونوں نے اپنی اپنی قربانی کا جانور میدان میں کھڑا کردیا،آسمان سے آگ اتری اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا، اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ہےاور قدرت نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہابیل  کا نکاح قابیل کی بہن سے ہوگا، مگر قابیل کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی،حسد کی آگ اس کے دل میں جوش مارنے لگی جس کا انجام یہ ہوا کہ  اس نے ہابیل کا قتل کردیا۔         یہ تھی روے زمین پر سب سے پہلی قربانی۔ اور سب سے  پہلا قتل بھی، جونفسانی شہوت کی وجہ سے پیش آئی۔ مذہب اسلام میں دسویں ذوالحجہ کو جو قربانی کی جاتی ہےوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے ہیں:   حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۱۲۰؍ سال اور آپ کی بیوی کی عمر ۹۰؍ کی ہوگئی تھی، مگر ابھی تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔بڑی دعا اور گریہ و زاری کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں ایک نیک فرزند عطا فرمایا، جب حضرت اسماعیل علیہ السلام  کچھ بڑے ہو  گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے،لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام  سمجھ گئےکہ اللہ تبارک وتعالیٰان کے بیٹے اسماعیل کی قربانی چاہتا ہے۔  آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتاتے ہیں: ’’ بیٹا میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں۔‘‘  سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام یہ  سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ رب کی مشیت کیا ہے،لہذا اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے  ہیں ۔ ’’ابا حضور اور اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو جو حکم دے رہا ہے آپ اسے کرگزریں ،ان شاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جاتے ہیں ذبح کرنے کے لیے، سنا آپ نے ؟ ایک باپ اپنے بیٹے کو صرف اور صرف رب کی رضا حاصل کرنے کے لیےذبح کرنے لے جارہا ہے،حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں: ’’ابا حضور آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا چہرا دیکھ  کرآپ کوترس آجائے،آپ کی محبت جاگ جائے اور آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکیں۔‘‘ ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی  عمربہت زیادہ نہیں ہوئی ہے،مگر باپ کا ادب کس طرح  کر رہے ہیں،کہیں باپ رب تعالیٰ کے حضور رُسوا نہ ہوجائے، یہی سوچ کر خود ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ سوچنے کی بات ہےکہ کیا اطاعتِ والدین کی کوئی اور ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے :                             ع یہ  فیضان نظر تھا  یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کوآداب فرزندی آج ہمارا کیا حال ہے؟ہم اپنے والد کی ایک بات سننے کو تیار نہیں ہیں،اگر باپ کوئی نصیحت کرتا ہےتو چہرے ناراضگی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں،دوستوں سے تو ہنس بول کر رہتے ہیں، مگر والدین سے کٹے کٹے گھومتے ہیں،محض اس لیے کہ ان بیوی خوش رہے اپنے والد کو الٹا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں،کچھ تو والدین کو ڈانٹ دیتے ہیں،کچھ تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیں کہ انھیں مار بیٹھتے ہیں،کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو انھیں گھر سے بھی نکال دیتے ہیں۔ ہائے افسوس!!! جن والدین کے سامنے ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے،ہمارا نوجوان طبقہ  ان کے ساتھ کس قدر غیر مہذب برتاو کر رہا ہے۔ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعے سے سبق لینا چاہیے،اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر سال عید ہمیں اپنے والدین کی عظمت و رفعت کا پتہ بتانے آتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ خیر ،تو میں کہہ رہا تھا: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے یہ کہنے کے بعد کہ ’’ابو آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیتے ہیں تاکہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس عظیم قربانی  کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہ جائیں ، اُدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر چھری چلاتے ہیں ،اِدھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ جنت سے ایک دنبہ لے جاکر اسماعیل کی جگہ پر رکھ دو، چھری چلتی ہے  مگر اسماعیل کے بدلے  جنّتی دنبہ ذبح ہو جاتا ہے ، بےقرار باپ جب آنکھوں سے پٹی کھولتا ہے کہ دیکھیں اس کے بچے کا کیا حال ہوا،ا تو دیکھتے ہیں کہ اسماعیل دور کھڑے مسکرا رہے ہیں اور اورایک دنبہ  ان کی جگہ پر ذبح ہو گیا ہے، رب تبارک و تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ہے کہ ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اسلام میں حضرت اس ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کو برقرار رکھا گیا ہے اور دس ذوالحجہ کو ہر مسلمان جو عقل والا ہو اور ضرورت سے زیادہ اتنا مال رکھتا ہوں جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ جون 2025ء میں اگر کسی کے پاس 65 سے 70 ہزارر وپے یا اس کی مقدار کوئی چیز ہو جو حاجت اصلیہ سے یعنی ضرورت سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی کا پیغام اسلام میں جو بھی تہوار  ہے ان میں غریبوں کی مدد کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے، دیکھیے رمضان میں لوگ زکاۃ دیتے ہیں ،صدقۂ فطردیتے ہیں؛ تاکہ غریبوں ،مسکینوں ، حاجت مندوں کی مدد ہوجائے اور وہ اپنے بال بچوں کے لیے کپڑے راشن وغیرہ خرید سکیں، اسی طرح  عید الاضحیٰ یعنی بکرا عید   کے موقع پر بھی اسلام نے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کی  ہے؛ لہذا شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ جس جانور کی قربانی آپ کرتے ہیں، آپ اس کے تین حصے کریں، ایک حصے کو آپ خود رکھیں، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دیں، اور ایک حصہ  غریبوں،مسکینوں  کو دیں ۔  یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی پورا کا پورا گوشت خود رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے ، مگر بہتر ومستحب اور ثواب اس میں ہے کہ وہ تین حصے کرکے ایک حصہ خود اپنے لیے رکھے ،باقی دو حصوں کو وہ تقسیم کردے ،ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو اور ایک حصہ غریبوں مسکینوں کو۔  قربانی  کا یہی پیغام ہےکہ قربانی کامفہوم ذہن میں رکھ کر اپنی پسندیدہ چیز راہِ خدا میں خرچ کرتا رہے،غریبوں کی مدد کرتا رہے، بے سہاروں کا سہارا بنتا رہے،یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتا رہے تاکہ اسے   رب کا قرب حاصل ہوجائے ۔ حج کیا ہے؟ مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ  کو سعودی عرب کے شہر مکۂ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت(مثلاً میدان عرفات میں قیام کرنا، خانۂ کعبہ کا طواف کرنا،صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا،شیطان کو کنکریاں مارنا،سر کے بال چھلانا وغیرہ) انجام دیتے ہیں، اس مجموعۂ عبادات کو حج کہتے ہیں۔     حدیث شریف میں ہے: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ، زكاة دينا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:۸) یعنی حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے،حج مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی عبادت بھی ،یعنی حج میں مال بھی صرف ہوتا ہے اور بدن سے عبادت بھی کی جاتی ہے ۔جب کہ نماز وروزہ صرف جسمانی عبادت اور زکاۃ صرف مالی عبادت ہے۔ حج پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے یعنی ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو، بالغ ہو،  آزاد ہواور حج  کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو،ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس  اتنا مال بھی ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو،اوراس کی غیر موجودگی میں  اس کے بال بچوں کی کفالت کے لیے بھی کافی ہو۔ از قلم : فاروق خاں مہائمی مصباحی  

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
Qalam ke baare mein

Qalam ke baare mein

(1)   Qalam ki nok par rakhuu.n ga is jahaa.n ko main Zamee.n lapet ke rakh duu.n ki aasmaan ko main (Mumtaaz)   Jis qalam ki qasam, saari kaainaat banaane waale Rab ne khaai ho, us mein koi baat zaruur hogi.   Taareekh ka sarsari jaaiza lene par aap ko pata chal jaaega ki duniya mein jo bhi inqilaab aaya hai,  Woh yu.n hi nahi.n aaya, qalam ne laaya hai.   Yeh qalam qayaamat tak apna kaam karta rahe , qalamkaar paida hote rahe.nge.   (2)   Hazrat Qataada farmaate hain:   Qalam Allaah ki bohot badi ni'mat hai, agar qalam na ho to deen qaaim na rahe.   (Tafseer-e-Tabri, zair-e-aayat Al-Lazii 'Allama Bil-Qalam)   Yeh qalam hi tha, jis ne Quraan mahfuuz kiya. Yeh qalam hi tha, jis ne Ahaadees-o-Sair jama’ kiye. Yeh qalam hi tha, jis ne Fiqhi masaail likhe. Yeh qalam hi tha, jis ne Tasawwuf ki baate.n ham tak poho.nchaaee.n.   Hazrat Qataada ne sach hi kaha hai ki qalam na ho to deen qaaim na reh sake.   (3)   Hame.n ma’luum hai ki log kitaabo.n se duur hote ja rahe hain.  Teen teen ghante, Paanch paanch ghante, Saat saat ghante woh mobile par films, drama aur reels dekhte hain, Magar koi kitaab agar, bees pachees minute bhi padhni pad jaae, To aise be-zaar hote hain ki use phenk kar hi dam lete hain.   Aisi situation mein ham qalam kaaro.n ki zimmedaariyaa.n aur bhi badh jaati hain.   Ab hame.n usluub aasaan se aasaan aur tehreer mukhtasar se mukhtasar rakhni hogi, Aur itni jaazib-o-purkashish ki Qaari, na chaahte hue bhi padhne par majbuur ho jaae.   Mahaaimi.

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n

Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n

Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n   Ek gaao.n mein ek designer rehta tha,  Apne kaam mein bada maahir tha,  Khuubsuurat design banaata,  Aur mehenge daamo.n mein bechta.    Ek din ek saahib unke paas aae  Aur unhe.n yehh mashwara dene lage:    "Tum bohot maal daar ho, Tumhaara dhanda bhi khuub chalta hai, Tum ghareebo.n ki madad kyu.n nahi.n karte, Apne gaao.n ke qasaai ko dekho! Woh gar che kuch ziyaada nahi.n kamaata,  Magar har roz fuqra ko muft mein gosht taqseem karta hai."   Yehh sun kar designer muskuraaya,  Is ke ‘alaawa usne kuch nahi.n kaha.  Us ka yeh rawaiyya dekh kar woh saahib taish mein aagae, Waha.n se laute, Aur saare gaao.n mein yeh khabar phaila di ki Designer bada kanjuus aur bakheel hai.   Jis ka nateejah yeh hua ki  Gaao.n waale us se nafrat karne lage. Kuch waqfe ba’d jab woh beemaar padha, To kisi ne uski ‘ayaadat na ki, Na hi kisi ne koi tawajjo di.   Usne baqiyah zindagi tanhaai mein guzaari Aur usi haal mein us ka inteqaal ho gaya.   Din yu.n hi guzarte rahe. Ab qasaai ne bhi gosht taqseem karna tark kar diya tha.   Logo.n ne jab us se iska sabab puucha to woh kehne laga: "Woh designer hi mujhe rupe deta tha, Taaki mein gosht khareedu.n aur fuqra mein taqseem karuun.  Us ke inteqaal ke ba’d rupe milne band hogae  To gosht kaha.n se laata..."    Is waaqi’e se hame.n sabaq milta hai ki Logo.n ko zaahir-bee.n nahi.n hona chaahiye  Ki jo dekha usi par yaqeen kar liya, Kyu.n ki kuch log parde mein rehna pasand karte hain, Woh nahi.n chaahte ki logo.n ko unki neki ka pata chale.    Isi tarah ek martaba Hazrat ‘Umar ؓ ne yeh baat note ki ki  Hazrat Abu Bakr Siddeeq ؓ har roz namaaz-e-fajr ke ba’d kahi.n jaate hain.    Unhe.n laga shaayad Hazrat Abu Bakr ؓ ne duusri shaadi kar li hai. Ek roz unho.n ne aap ka peecha kiya; Ki kuch ahwaal ma’luum kare.n.   Unho.n ne dekha ki  Abu Bakr ek kamre mein daakhil hue  Wahaa.n kuch der thehre aur phir waapas laut aae.   Jab Hazrat Abu Bakr ؓ ko rozaana yahi karta dekha, To Hazrat ‘Umar ؓ ko bhi yaqeen ho gaya ki Abu Bakr ؓ jo bhi karte ho.nge theek hi karte ho.nge. Ab Hazrat ‘Umar ne socha kyu.n na Abu Bakr ؓ ke is raaz ka pata lagaaya jaae.   Is liye woh Us ghar ke paas poho.nche,  Darwaaza khat-khataaya,  Saamne ek buudhi ‘aurat khadi thi.  Hazrat ‘Umar ؓ ne us se  Puucha:   "Yeh aadmi jo yahaa.n aata hai  Yahaa.n aakar kya karta hai?"   Budhiya ne kaha: "Sach kahuu.n to beta mein ise pehchaanti tak nahi.n.    Woh rozaana yahaa.n aata hai, Jhaaduu lagaata hai, Mera khaana paka deta hai Mere kapde bhi dho deta hai Aur baghair kuch kahe Chala jaata hai."   Yeh sun kar Hazrat ‘Umar ؓ apna taareekhi jumla kehte hain: "Abu Bakr! Aapne to apne ba’d waalo.n ko thaka daala." (Aap ke ba’d koi aap sa banna chaahe to na ban paaega.)   mahaaimi

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
قلم کے بارے میں

قلم کے بارے میں

(۱)  قلم کی نوک پر رکھوں گا اِس جہاں کو میں  زمین لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں (ممتاز) جس قلم کی قسم ، ساری کائنات بنانے والے رب نے کھائی ہو ، اُس میں کوئی بات ضرور ہوگی ۔  تاریخ کا سرسری جائزہ لینے پر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ دنیا میں جو بھی انقلاب آیا ہے ، وہ یوں ہی نہیں آیا ، قلم نے لایا ہے۔ یہ قلم قیامت تک اپنا کام کرتا رہے ، قلم کار پیدا ہوتے رہیں گے۔ (۲)  حضرت  قتادہ فرماتے ہیں : قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، اگر قلم نہ ہو تو دین قائم نہ رہے ۔  (تفسیر طبری ، زیر آیت اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ) یہ قلم ہی تھا،جس نے قرآن محفوظ کیا ۔  یہ قلم ہی تھا جس نے احادیث وسیر جمع کیے۔  یہ قلم ہی تھا جس نے فقہی مسائل لکھے۔  یہ قلم ہی تھا جس نے تصوف کی باتیں ہم تک پہنچائیں۔ حضرت قتادہ نے سچ ہی کہا ہے کہ قلم نہ ہو دین قائم نہ رہ سکے۔ (۳) ہمیں معلوم ہے کہ لوگ کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔  تین تین گھنٹہ ،  پانچ پانچ گھنٹہ ،  سات سات گھنٹہ وہ موبائل پر فلمیں ، ڈرامے اور ریلز دیکھتے ہیں ،  مگر کوئی کتاب اگر ، بیس پچیس منٹ بھی پڑھنی پڑ جائے ، تو ایسے بے زار ہوتے ہیں کہ اسے پھینک کر ہی دم لیتے ہیں۔ ایسی سچویشن۔ (situation)میں ہم قلم کاروں ذمے داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔  اب ہمیں اسلوب آسان سے آسان اور تحریر مختصر سے مختصر رکھنی ہوگی ،  اور اتنی جاذب و پرکشش کہ قاری ، نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھنے پر مجبور ہو جائے ۔ مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi