عیدالاضحیٰ
عید کیا ہے؟
ہمیں سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ عید کہتے کس کو ہیں،تو سنیے:
عیدکا لفظ ’’عود ‘‘سے بنا ہے، عودکے معنی ہیں بار بار آنا ،کیوں کہ عید بار بار آتی ہے اور ہر سال عید منایا جاتا ہے اس لیے عید کو عید کہا جاتا ہے۔
مسلمانوں میں دو طرح کی عید منائی جاتی ہے، ایک ’’عید الفطر‘‘ اور دوسری ’’عید الاضحیٰ‘‘۔
’’عید الفطر‘‘ رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اسے کہتے ہیں اور دس ذوالحجہ کو جو عید منائی جاتی ہے ،جس میں قربانی کی جاتی ہے، اسے عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔چوں کہ اس دن قربانی کی جاتی ہےاورکے زیادہ تر گھروں میں بکروں کی قربانی ہوتی ہے ، اس لیے ہندوستان اور ان ملکوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہےاس عید کو ’’بکراعید‘‘ بھی کہتے ہیں۔
’’عید الاضحیٰ‘‘ میں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک حج کرنا اور دوسری اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنا۔
قربانی کیا ہے؟
قربانی کا لفظ،’’ قربان‘‘ سے بنا ہے اور ’’قربان‘‘ قرب ‘‘سے ۔قرب کے معنی ہوتے ہیں نزدیکی۔اور اسلام میں قربانی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں نچھاور کرکے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔
یعنی اگر کوئی خود کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کے لیے کوئی بھی چیز راہِ خدا میں خرچ کرے تو اسے قربانی کہا جائے گا۔ یعنی ہر مسلمان جب چاہے کوئی بھی چیز صدقہ کر کے قربانی یعنی اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔
لیکن اسلام میں قربانی ایک خاص معنی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔اور وہ ہے دس ذوالحجہ کو اللہ کے نام سےکسی جانور کو قربان کیا جائے۔یہ قربانی بڑی اہمیت رکھتی ہے،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تین دن قربانی کرنے کے لیے خاص کر دیا ہے،۱۰-۱۱-۱۲ – ذوالحجہ۔ اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کو دوسری تمام عبادتوں سے زیادہ قربانی کا عمل پسند ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم ۳۰۰۰۰؍ہزار کا بکرا لانے کی بجائے ان روپیوں سے کسی غریب کی مدد کر دیں ،تو وہ اپنی سوچ میں بالکل غلطی پر ہے۔اس طرح کے صدقات کے لیے سال کےباقی دن ہیں ،ان دنوں میں اس طرح کا صدقہ کرنا بہت مفید ہے اور اجر وثواب کا باعث ہے۔ ان دنوں میں کسی جانور کی قربانی کرنا ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قربانی نہ کر کے اس کی رقم صدقہ کردے تو قربانی سےبری الذمہ نہیں ہوگا ،بلکہ اس پر قربانی واجب ہی رہے گی۔
قربانی کی ابتدا
یوں تو قربانی کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل سے ہوئی تھی، اس کا مختصر قصہ یہ ہے افزائش نسل کے لیے ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے ہونا طے پایا تھا،چوں کہ قابیل کی بہن زیادہ خوب صورت تھی اس لیے قابیل کا دل اُس پر آ گیا، قابیل کے دل میں یہ لالچ پیدا ہوگئی کہ خود وہی اپنی بہن سے شادی کر لےاور ہابیل کی شادی اس سے نہ ہونے دے۔ یہ بات جب حضرت آدم علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو انھوں نے قابیلکو سمجھایا ،جب قابیل نہ ماناتواُن دونوں سے کہا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کروں جس کی قربانی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرلے قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔
اس وقت قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کا جانور بیچ میدان میں رکھ دیا جاتا تھا،جس کی قربانی قبول ہوناہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی۔
حضرت آدم علیہ السلام کے حکم پر ہابیل اور قابیل دونوں نے اپنی اپنی قربانی کا جانور میدان میں کھڑا کردیا،آسمان سے آگ اتری اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا، اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ہےاور قدرت نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے ہوگا، مگر قابیل کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی،حسد کی آگ اس کے دل میں جوش مارنے لگی جس کا انجام یہ ہوا کہ اس نے ہابیل کا قتل کردیا۔
یہ تھی روے زمین پر سب سے پہلی قربانی۔
اور سب سے پہلا قتل بھی، جونفسانی شہوت کی وجہ سے پیش آئی۔
مذہب اسلام میں دسویں ذوالحجہ کو جو قربانی کی جاتی ہےوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۱۲۰؍ سال اور آپ کی بیوی کی عمر ۹۰؍ کی ہوگئی تھی، مگر ابھی تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔بڑی دعا اور گریہ و زاری کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں ایک نیک فرزند عطا فرمایا، جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے،لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئےکہ اللہ تبارک وتعالیٰان کے بیٹے اسماعیل کی قربانی چاہتا ہے۔
آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتاتے ہیں:
’’ بیٹا میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں۔‘‘
سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام یہ سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ رب کی مشیت کیا ہے،لہذا اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں ۔
’’ابا حضور اور اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو جو حکم دے رہا ہے آپ اسے کرگزریں ،ان شاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘
اب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جاتے ہیں ذبح کرنے کے لیے، سنا آپ نے ؟ ایک باپ اپنے بیٹے کو صرف اور صرف رب کی رضا حاصل کرنے کے لیےذبح کرنے لے جارہا ہے،حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں:
’’ابا حضور آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا چہرا دیکھ کرآپ کوترس آجائے،آپ کی محبت جاگ جائے اور آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکیں۔‘‘
ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمربہت زیادہ نہیں ہوئی ہے،مگر باپ کا ادب کس طرح کر رہے ہیں،کہیں باپ رب تعالیٰ کے حضور رُسوا نہ ہوجائے، یہی سوچ کر خود ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ سوچنے کی بات ہےکہ کیا اطاعتِ والدین کی کوئی اور ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے : ع
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کوآداب فرزندی
آج ہمارا کیا حال ہے؟ہم اپنے والد کی ایک بات سننے کو تیار نہیں ہیں،اگر باپ کوئی نصیحت کرتا ہےتو چہرے ناراضگی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں،دوستوں سے تو ہنس بول کر رہتے ہیں، مگر والدین سے کٹے کٹے گھومتے ہیں،محض اس لیے کہ ان بیوی خوش رہے اپنے والد کو الٹا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں،کچھ تو والدین کو ڈانٹ دیتے ہیں،کچھ تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیں کہ انھیں مار بیٹھتے ہیں،کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو انھیں گھر سے بھی نکال دیتے ہیں۔
ہائے افسوس!!! جن والدین کے سامنے ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے،ہمارا نوجوان طبقہ ان کے ساتھ کس قدر غیر مہذب برتاو کر رہا ہے۔
ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعے سے سبق لینا چاہیے،اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر سال عید ہمیں اپنے والدین کی عظمت و رفعت کا پتہ بتانے آتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
خیر ،تو میں کہہ رہا تھا:
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے یہ کہنے کے بعد کہ ’’ابو آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیتے ہیں تاکہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس عظیم قربانی کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہ جائیں ، اُدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر چھری چلاتے ہیں ،اِدھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ جنت سے ایک دنبہ لے جاکر اسماعیل کی جگہ پر رکھ دو، چھری چلتی ہے مگر اسماعیل کے بدلے جنّتی دنبہ ذبح ہو جاتا ہے ، بےقرار باپ جب آنکھوں سے پٹی کھولتا ہے کہ دیکھیں اس کے بچے کا کیا حال ہوا،ا تو دیکھتے ہیں کہ اسماعیل دور کھڑے مسکرا رہے ہیں اور اورایک دنبہ ان کی جگہ پر ذبح ہو گیا ہے، رب تبارک و تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ہے کہ ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔
اسلام میں حضرت اس ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کو برقرار رکھا گیا ہے اور دس ذوالحجہ کو ہر مسلمان جو عقل والا ہو اور ضرورت سے زیادہ اتنا مال رکھتا ہوں جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ جون 2025ء میں اگر کسی کے پاس 65 سے 70 ہزارر وپے یا اس کی مقدار کوئی چیز ہو جو حاجت اصلیہ سے یعنی ضرورت سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
قربانی کا پیغام
اسلام میں جو بھی تہوار ہے ان میں غریبوں کی مدد کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے، دیکھیے رمضان میں لوگ زکاۃ دیتے ہیں ،صدقۂ فطردیتے ہیں؛ تاکہ غریبوں ،مسکینوں ، حاجت مندوں کی مدد ہوجائے اور وہ اپنے بال بچوں کے لیے کپڑے راشن وغیرہ خرید سکیں، اسی طرح عید الاضحیٰ یعنی بکرا عید کے موقع پر بھی اسلام نے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کی ہے؛ لہذا شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ جس جانور کی قربانی آپ کرتے ہیں، آپ اس کے تین حصے کریں، ایک حصے کو آپ خود رکھیں، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دیں، اور ایک حصہ غریبوں،مسکینوں کو دیں ۔
یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی پورا کا پورا گوشت خود رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے ، مگر بہتر ومستحب اور ثواب اس میں ہے کہ وہ تین حصے کرکے ایک حصہ خود اپنے لیے رکھے ،باقی دو حصوں کو وہ تقسیم کردے ،ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو اور ایک حصہ غریبوں مسکینوں کو۔
قربانی کا یہی پیغام ہےکہ قربانی کامفہوم ذہن میں رکھ کر اپنی پسندیدہ چیز راہِ خدا میں خرچ کرتا رہے،غریبوں کی مدد کرتا رہے، بے سہاروں کا سہارا بنتا رہے،یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتا رہے تاکہ اسے رب کا قرب حاصل ہوجائے ۔
حج کیا ہے؟
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکۂ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت(مثلاً میدان عرفات میں قیام کرنا، خانۂ کعبہ کا طواف کرنا،صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا،شیطان کو کنکریاں مارنا،سر کے بال چھلانا وغیرہ) انجام دیتے ہیں، اس مجموعۂ عبادات کو حج کہتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ، زكاة دينا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر:۸)
یعنی حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے،حج مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی عبادت بھی ،یعنی حج میں مال بھی صرف ہوتا ہے اور بدن سے عبادت بھی کی جاتی ہے ۔جب کہ نماز وروزہ صرف جسمانی عبادت اور زکاۃ صرف مالی عبادت ہے۔
حج پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے یعنی ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو، بالغ ہو، آزاد ہواور حج کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو،ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس اتنا مال بھی ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو،اوراس کی غیر موجودگی میں اس کے بال بچوں کی کفالت کے لیے بھی کافی ہو۔
از قلم : فاروق خاں مہائمی مصباحی