جنوری کا مہینہ تھا اور سن ۲۰۱۰ ،
ہم طلبہ کی جانب سے دار العلوم علی حسن اہل سنت میں یوم جمہوریہ کا پروگرام منعقد تھا ، جس کی سر پرستی استاد محترم حضرت مولانا نور القمر ابن رقم مصباحی کر رہے تھے ۔ ہم طلبہ میں قرطاس و قلم کی روح پھونکنے والے حضرت ہی تھے۔ مجھے یاد ہے !
طلبہ کے خطاب اور میرے خطبۂ صدارت کے بعد ،
ناظم صاحب انیس بھائی نے استادِ محترم کو دعوتِ سخن دیتے وقت آپ کے القاب میں ایک لفظ ’’رئیس القلم‘‘ استعمال کیا تھا، اور مائک پر آتے ہی حضرت نے یہ وضاحت کی تھی :
’’میں رئیس القلم نہیں ، میں قلم کا ادنیٰ خادم ہوں ، ہندوستان میں اِس وقت ایک ہی رئیس القلم ہیں اور وہ ہیں علامہ یاسین اختر مصباحی دام ظلہ۔‘‘
میں ابھی جماعت ِرابعہ میں تھا، اور جماعت ِثالثہ سے میں نے با ضابطہ اپنے مطالعتی دور کا آغاز کیا تھا ۔
رئیس القلم علامہ یاسین اختر مصباحی کا نام اِس سے پہلے کئی کتابوں پر دیکھ چکا تھا ، ایک کتاب بھی پڑھی تھی اُن کی ۔ مگر وہ قلمی دنیا کے بادشاہ ہیں ، یہ پہلی بار معلوم چلا تھا۔
ستمبر ۲۰۱۰ ء میں میرا داخلہ جامعہ اشرفیہ میں ،
مطلوبہ جماعت ، جماعتِ خامسہ میں ہو گیا ،
استادِ محترم ( ابن رقم مصباحی ) نے یہ کہہ کرا شرفیہ بھیجا تھا کہ چھٹیوں میں گھر نہیں آنا ہے ، بلکہ کبھی دہلی ، کبھی لکھنو ، کبھی کہیں اور علمی سفر پر نکل جانا ہے ۔
اس لیے نومبر ۲۰۱۰ ءمیں عید الاضحیٰ کی چھٹیاں منا نے دہلی جانا ہوا تھا ، ساتھ میں درگاہ نیلور شریف کے چشم و چراغ سید مرتضیٰ (قادری مصباحی ازہری) بھی تھے۔
گھومنے ٹہلنے اور اردو بازار سے کتابیں خریدنے کے بعد ذاکر نگر جاکر دار القلم دیکھنےاور علامہ سے ملاقات کرنے کا ارادہ تھا، عید الاضحی کی نماز قادری مسجد کے پہلے منزلے پر ادا کی گئی ، نگاہ شوق نے تاڑ لیا تھا کہ علامہ پہلی صف میں بیٹھے ہیں ۔
چوں کہ میں ویزن میں جو کہ جامِ نور کی ٹیم نکالا کرتی تھی ، علامہ کی تصویر دیکھ چکا تھا، اِس لیے نمازکے بعد دست بوسی کی ، اور آہستے سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ہم اشرفیہ سے آئیں ہیں یہ پہلے بتا چکا تھا ، حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے ، آئیے ۔
علامہ اپنے کمرے میں چلے گئے اور میں سید صاحب کی طرف مڑکر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوا :
’’یار تم خانقاہی لوگوں کا الگ ہی فنڈا ہے ، دوسروں سے ہے ہاتھ تو چمواتے ہو ، مگر خود کسی کا نہیں چومتے ، گرچہ کوئی کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو ۔‘‘
حالاں کہ سید صاحب ایسے نہیں تھے ، وہ تو ہم سے زیادہ مہذب اور با ادب تھے ، اِس لیے اُنھوں نے اچمبا ظاہر کرتے ہوئےپوچھا : ارے بھائی کسی کا ہاتھ میں نے نہیں چوما ۔
راقم : علامہ یاسین اختر صاحب کا۔
سید صاحب : وہ کب آئے ؟ اور تو کب ملا اُن سے؟
راقم : ابھی جو تمھارے سامنے سے گئے ، جن سے میں بات کر رہا تھا ۔
یہ سن کر وہ الٹے پاؤں واپس گئے ، دست بوسی کر کے واپس آئے اور کہنے لگے :
’’واقعی یارا کیا سادگی ہے ، جو حضرت سے واقف نہ ہو گا وہ کبھی پہچان نہ پائے گا۔‘‘
یہ تھی علامہ کی سادگی ، جو اچھے اچھے کو حیران کر دیتی تھی ، اُس دن عید کا دن تھا ۔ علامہ صاف ستھرا سفید لباس پہنے تھے ، جو پرانا ہونے کے سبب پیلا پڑ گیا تھا، واللہ بتا رہا ہوں پاجامہ کی ترپائی ایک جگہ سے کھلی تھی اور لگ بھگ ڈھائی مربع انچ دامن میں سراخ تھا۔
اس سادگی پہ کیوں نہ قربان جائیے
مہائمی