Feedback submitted successfully!
رزق

رزق

    • Writer
    • Farooque Mahaimi
  •  Farooque Mahaimi

Rizq do tarah ke hain, 

Ek mazmuun, duusra maqsuum, 

Rizq-e-mazmuun se muraad ghiza aur har woh shai hai jisse insaan ka badan qaaim rahe. Tamaam asbaab muraad nahi.n hain. Aur

’’وَمَا مِن دَابَةٍ فِي ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزۡقُهَا‘‘.  )سور ھود: (6

se yehi rizq muraad hai, yaani rizq-e-mazmuun hi Allah Ta'ala ke zimmay kariim par hai.

Rizq-e-maqsuum se muraad woh cheezen hain jo rizq-e-mazmuun se extra hain. Rizq-e-maqsuum, bando ko talaash karna padhta hai, jabke rizq-e-mazmuun be-talaash hi milta hai. Aur “ وابتغوا من فضل الله (Surah Jummah: 10) se rizq-e-maqsuum muraad hai. Magar ye talaash waajib nahi.n, balke mubaah hai, kyu.nke bohot se ambiyaa-e-kiraam aur sufiyaah-e-‘izaam ne rizq-e-maqsuum ki talaash nahi.n ki.

Mahaaimi.

رزق دو طرح کے ہیں ،
ایک مضمون ، دوسرا مقسوم ،
رزق مضمون سے مراد غذا اور ہر وہ شے ہے جس سے انسان کا بدن قائم رہے ۔ تمام اسباب مراد نہیں ہے ۔ اور’’وَمَا مِن دَابَةٍ فِي ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزۡقُهَا‘‘(سورۂ ھود:۴) سے یہی رزق مراد ہے، یعنی رزق مضمون ہی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے ۔

رزقِ مقسوم سے مراد وہ چیزیں ہیں جو رزقِ مضمون سے ایکسٹرا (Extra) ہیں۔ رزقِ مقسوم ، بندوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے ، جب کہ رزق مضمون بے تلاش ہی ملتا ہے۔ اور’’ وابتغوا من فضل الله‘‘(سورۂ جمعہ:۱۰) سے رزقِ مقسوم مراد ہے۔ مگر یہ تلاش واجب نہیں ، بلکہ مباح ہے ، کیوں کہ بہت سے انبیاے کرم اور صوفیاے عظام نے رزق مقسوم کی تلاش نہیں کی۔

مہائمی
 

About

Farooque Mahaimi

Farooq Khan Mahaimi Misbahi is a Sunni Islamic scholar who has pursued both religious and secular education. He earned his degrees in 'Aalim, Faazil, and Ifta' from Jamia Ashrafia, Mubarakpur, Azamgarh, UP, and completed 'Munshi, Maulvi, Aalim, and Kamil' certifications from the UP Madrasa Board. Additionally, after passing Matriculation and Intermediate from school, he obtained his B.A. and M.A. degrees from Maulana Azad National Urdu University (MANUU). Mahaimi Saheb served for six years at Darul Uloom Mahboob Subhani, Kurla, Mumbai, focusing on issuing fatwas and teaching. For the past three years, he has been teaching at Jamiat-ul-Madina Faizan-e-Kanz-ul-Iman, the central seminary of Dawat-e-Islami in Mumbai. Additionally, for the last year, he has been affiliated with the Maula Ali Research Centre, managed by Minara Masjid Trust. Alhamdulillah, Mahaimi Sahib has worked on ten books so far, authored numerous articles, and issued over a hundred fatwas. May Allah accept his efforts.

Farooque Mahaimi

Writer Article Highlight

View All Artcles
امام مالک کو کوڑے لگائے گئے۔۔۔

امام مالک کو کوڑے لگائے گئے۔۔۔

حضرت امام مالک سے ایک استفا ہوا۔ اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے کسی مجبوری میں ، تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی ؟ امام مالک نے فتوی دیا : نہیں ، مجبوری کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس پر حکومتِ وقت نے امام مالک پر کوڑے برسائے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اتنی چھوٹی سی بات پر حکومت نے دخل اندازی کیوں کی ؟ اور ایک بڑے عالم دین پر کوڑے کیوں لگائی ۔ تو وجہ پڑھیے : یہ مسئلہ تھا تو دینی ، مگر اس کا تعلق سیاست سے بھی تھا۔ اس زمانے میں خلفا سے جو بیعت کی جاتی تھی ، اس میں یہ کہلایا جاتا تھا کہ ’’ اگر بیعت توڑی تو بيوی پر طلاق پر جائے گی۔‘‘ چوں کہ یہ طلاق مجبوری میں معلق کی جاتی تھی ، اور امام مالک کے فتوے کے مطابق مجبوری کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، لہٰذا حکومت وقت امام مالک کے خلاف ہو گئی ، اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے فتوے سے رجوع کر لیں ۔ مگر نائبین انبیاء ، انبیاء کا کام کرنے میں کسی کا خوف نہیں کھاتے ،  بس کر گزرتے ہیں ۔ امام مالک نے بھی وہی کیا ۔ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
مسئلہ اسراف وتبذیر تحقیقاتِ رضویہ کی روشنی میں

مسئلہ اسراف وتبذیر تحقیقاتِ رضویہ کی روشنی میں

مسئلہ اسراف وتبذیر تحقیقاتِ رضویہ کی روشنی میں از: محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی مسئلہ اسراف وتبذیر عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے لیے ایک چیلنج بھرا مسئلہ ہے جو تمام مسلمانوں کے لیے زندگی کی کئی جہات میں پیش قدمی کرنے میں سد راہ ثابت ہورہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس سے نجات کی کوئی صورت دور دور تک دکھائی نہیں پڑتی، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس خاص مسئلہ کو اس کے تمام گوشوں کے ساتھ واضح کیا جائے اور اس کے مالہ وماعلیہ کے اعتبار سے امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی تحقیقات جلیلہ کی روشنی میں گفتگو کی گنجائش نکالی جائے تاکہ ذرہ بھر اشکال وایراد باقی نہ رہے اور مسئلہ کی شفافیت سے نگاہیں خیرہ ہوں۔ فقیہ اسلام ، مجدد اعظم ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ نے ۱۳۲۷ھ میں طہارت میں بے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے متعلق ایک خاص سوال کے جواب میں ایک تفصیلی وتحقیقی رسالہ ’’برکات السماء فی حکم اسراف الماء‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جو فتاویٰ رضویہ مترجم مطبوعہ گجرات ص: ۶۵۱ تا ۷۶۵، ج:۱؍ پر موجود ہے۔ ۱۱۵؍ صفحات پر مشتمل اس رسالے میںقرآنی آیات، نبوی احادیث وآثار، اقوال ائمہ وفقہا تصریحات شارحین احادیث اور مستند ومعروف کتب لغات سے ۲۹۰ کے قریب حوالہ جات کی کہکشاں جگمگارہی ہے جس میں مذکورہ مسئلہ کا شافی وکافی حل پیش کرنے کے ساتھ عنوان مقالہ کے تمام گوشوں پر تحقیقی انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور مسئلہ اسراف وتبذیر کاعمومی اور خصوصی جائزہ لیاگیا ہے جو اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے شاید کہ کہیں اور ملے، اس لیے ر اقم اس پوری بحث کا خلاصہ پیش کررہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ امام احمد رضا قادری نے اسراف کی کل گیارہ صورتیں نکالی ہیں اور پھر دلائل وشواہد ونظائر کی روشنی میں ان پر بحث وتمحیص کے دروا کیے ہیں، وہ گیارہ صورتیں درج ذیل ہیں: (۱)غیر حق میںصرف کرنا (۲)حکم الٰہی کی حد سے بڑھنا (۳)ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرع مطہر یا مروت کے خلاف ہو (۴) طاعت الٰہی کے غیر میں اٹھانا (۵)حاجت شرعیہ سے زیادہ استعمال کرنا (۶)غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا (۷)دینے میں حق کی حد سے کمی یا بیشی (۸)ذلیل غرض میں کثیر مال اٹھا دینا (۹)حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا (۱۰)لائق وپسندیدہ بات میں قدر لائق سے زیادہ اٹھادینا (۱۱) بے فائدہ خرچ کرنا۔ امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں: ’’اقول، اسراف کی تفسیر میں کلمات متعدد وجہ پر آئے (۱) غیر حق میں صرف کرنا، یہ تفسیر سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی، فریابی، سعید بن منصور، ابوبکر بن ابی شیبہ اوربخاری نے ادب المفرد میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو حاتم طبرانی، حاکم بافادہ تصحیح، بیہقی نے شعب الایمان میں اور یہ لفظ ابن جریر کے ہیں، ان تمام حضرات نے اللہ تعالیٰ کے قول ولاتبذر تبذیرا کی تفسیر میں فرمایا کہ : التبذیر فی غیر الحق وہو الاسراف یعنی تبذیر ناحق خرچ کو کہتے ہیں، یہی اسراف ہے۔ (تفسیر ابن جریر، مصری ص:۵۰ ج:۱۵) اور اسی کے قریب ہے کہ وہ تاج العروس میں بعض سے نقل کیا: وضع الشی فی غیر موضعہ یعنی بے جا خرچ کرنا ۔ ابن ابی حاتم نے امام مجاہد تلمیذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی: لوانفقت مثل ابی قبیس ذہبا فی طاعۃ اللہ لم یکن اسرافاً ولوانفقت صاعا فی معصیۃ اللہ کان اسرافا۔ (ترجمہ) اگر تو اللہ کی فرماں برداری میں کوہ ابوقبیس کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی اسراف نہ ہوگا اور اگر تو ایک صاع بھی اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرے تو اسراف ہوگا (تفسیر کبیر ، ص:۲۱۴، ج:۱۳)  امام احمد رضا نے جب اس مسئلہ کی ابتدا کی تو تنبیہ ۶ کے تحت فرمایا: ’’اسراف بلا شبہ ممنوع وناجائز ہے قال اللہ تعالیٰ: ولا تعسرفوا انہ لایحب المسرفین (بے جا خرچ نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بے جا خرچ کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا) قال اللہ تعالیٰ: ولاتبذرتبذیرا، ان المبذرین کانو اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا۔ مال بے جا نہ اڑا، بے شک بے جا مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (القرآن الکریم ۲۶،۲۷؍ ۱۷)اھ  اسراف کی وجہ اول بیان کرنے کے بعد امام احمد رضا نے حاتم کی کثرت داد ودہش کے تعلق سے ایک مکالمہ پیش فرمایا یہ وہی حاتم ہے جس کا نام سخاوت میں ضرب المثل ہے، فرماتے ہیں: ’’کسی نے حاتم کی کثرت داد ودہش پر کہا: لا خیر فی سرف، اسراف میں خیر نہیں، اس نے جواب دیا: لاسرف فی خیر، خیر میں اسراف نہیں۔ ’’اقول حاتم کا مقصود تو خدا نہ تھا، نام تھا کما نص علیہ فی الحدیث، تو اس کی ساری داد ودہش اسراف ہی تھی مگر سخائے خیر میں بھی شرع مطہر اعتدال کا حکم فرماتی ہے، قال اللہ تعالیٰ: ولاتجعل ید ک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطہا کل البسط فتقعد ملوما محسورا (فرمان الٰہی ہے: اور تو اپنا ہاتھ اپنی گردن میں باندھ کر نہ رکھ اور نہ اس کو پوری طرح کھول دے ورنہ تو ملامت زدہ، حسرت زدہ ہوکر بیٹھ رہے گا)‘‘ (فتاویٰ رضویہ ص:۰ ۶۹، ج:۱) آگے کی سطور میں بھی آیات قرآنیہ سے مسئلۂ اعتدال کو مبرہن کیا ہے اور غزوہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکمِ تصدق پر حضرت صدیق اکبر وفاروق اعظم کے جذبہ مسابقت والے واقعہ کو بطور شاہد پیش کرکے امام نے لکھا کہ: ’’اور تحقیق یہ ہے کہ عام کے لیے وہی حکم میانہ روی ہے اور صدق توکل وکمال تبتل والوں کی شان بڑی ہے‘‘ اور پھر اسراف کی دوسری صورت کا تذکرہ فرمایا: (۲)حکم الٰہی کی حد سے بڑھنا، یہ تفسیر ایاس بن معویہ بن قرہ تابعی ابن تابعی ابن صحابی کی ہے ابن جریر اور ابو الشیخ نے سفیان بن حسین سے ابوبشر سے روایت کی کہ لوگوں نے ایاس بن معویہ رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا، اور ان سے دریافت کیا کہ اسراف کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ماتجاوزت بہ امر اللہ فہوا اسراف: وہ خرچ جس میں تم اللہ کے حکم سے تجاوز کرو وہ اسراف ہے (ابن جریر، مصر ص۴۲، ج۸) اور اسی کی مثل اہل لغت سے ابن الاعرابی کی تفسیر کما سیاتی من التفسیر الکبیر۔  تعریفات السید میں ہے: الاسراف تجاوز الحد فی النفقۃ (نفقہ میں حد سے تجاوز کرنا اسراف ہے) (فتاویٰ رضویہ ص:۶۹۱، ۶۹۲، ج:۱) اوراسراف کی تیسری صورت کو یوں واضح فرمایا ساتھ ہی حکم بھی بیان کیا، فرماتے ہیں: (۳)ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرع مطہر یا مروت کے خلاف ہو، اول حرام ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی، طریقہ محمدیہ میں ہے، الاسراف والتبذیر ملکۃ بذل المال حیث یجب امساکہ بحکم الشرع أوا لمروۃ وہی رغبۃ صادقۃ للنفس فی الافادۃ بقدر مایمکن وھما فی مخالفۃ الشرع حرامان وفی مخالفۃ المروۃ مکرومان تنزیہاً (طریقہ محمدیہ، ص:۲۸، ج:۲) (ترجمہ) اسراف اور تبذیر مال کو ایسے مقام پر خرچ کرنے کا ملک ہے جہاں اس کو بحکم شرع یا بحکم مروۃ رو کے رکھنا واجب ہے، اور مروۃ یہ رغبت صادقہ ہے نفس کی امکانی حد تک کسی کو فائدہ پہونچانے کے لیے اور یہ دونوں چیزیں مخالفت شرع میں حرام ہیں اور مخالفت مروۃ میں مکروہ تنزیہی ہیں۔ امام احمد رضاقادری نے صورت مذکورہ کو دلائل سے واضح کرنے کے بعد بطور خلاصہ تحریر فرمایا: ’’اقول وباللہ التوفیقآدمی کے پاس جو مال زائد بچا ہے اور اس نے ایک فضول کام میں اٹھادیا جیسے بے مصلحت شرعی مکان کی زینت وآرائش میں مبالغہ، اس سے اسے تو کوئی نفع ہوا نہیں اوراپنے غریب مسلمان بھا ئیوں کو دیتاتو ان کو کیسا نفع پہنچتا تو اس حرکت سے ظاہر ہواکہ اس نے اپنی بے معنی خواہش کو ان کی حاجت پر مقدم رکھا اور یہ خلاف مروت ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ص:۶۹۳، ج:۱) چوتھی صورت ووجہ کو یوں بیان فرمایا: (۴)طاعت الٰہی کے غیر میں اٹھانا۔ قاموس میں ہے: الاسراف التبذیر اوما انفق فی غیر طاعۃ، اسراف فضول خرچی ہے یا غیر طاعت میں خرچ کرنا ہے۔ (قاموس المحیط ص:۱۵۶، ج:۳) رد المحتار میں اسی کی نقل پر اقتصار فرمایا اقول ظاہر ہے کہ مباحات نہ طاعت ہیں نہ ان میں خرچ اسراف مگر یہ کہ غیر طاعت سے خلاف طاعت مراد لیں تو مثل تفسیر دوم ہوگی‘‘ (رضویہ ص:۶۹۳، ج:۱) اور اسراف کی پانچویں صورت اس طرح واضح کی: (۵)حاجت شرعیہ سے زیادہ استعمال کرنا، کما تقدم فی صدر البحث عن الحلیہ والبحر وتبعہما العلامۃ الشامی اورچھٹی صورت کی وضاحت میں تحریر فرماتے ہیں: (۶)غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا، نہایہ اثیر ومجمع بحار الانوار میں ہے: الاسراف والتبذیر فی النفقۃ لغیر حاجۃ او فی غیر طاعۃ اللہ تعالیٰ،اسراف اور تبذیر بغیر ضرورت خرچ یا غیر طاعت خداوندی میں خرچ۔  ساتویں صورت میں رقم طراز ہیں: (۷) دینے میں حق کی حد سے کمی یا بیشی، تفسیر ابن جریر میں ہے: الاسراف فی کلام العرب الاخطاء باصابۃ الحق فی العطیۃ اما بتجاوزہ حدہ فی الزیادۃ واما بتقصیر عن حدہ الواجب، کلام عرب میں اسراف کے معنی عطیہ دینے میں حق کو چھوڑ دینے کے ہیں یا حد سے تجاوز کرنے میں یا حد واجب سے تقصیر کرنے میں‘‘ آگے مزید ارقام فرماتے ہیں: ’’اقول یہ عطا کے ساتھ خاص ہے اور اسراف کچھ لینے دینے میں ہی نہیں، اپنے خرچ کرنے میں بھی ہے‘‘ (ص:۶۹۵، ج:۱) آٹھویں کے ذیل میں فرماتے ہیں: (۸)ذلیل غرض میں کثیر مال اٹھا دینا۔ تعریفات السید میں ہے: الاسراف انفاق المال الکثیر فی الغرض الخسیس، اسراف مال کثیر کا گھٹیا مقصد کے لیے خرچ کرنا۔ پھر اس تعریف پر تنقید کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’اقول یہ بھی جامع نہیں: بے غرض محض تھوڑا مال ضائع کردینا بھی اسراف ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ ص:۶۹۵، ج:۱) خاص کھانے سے متعلق اسراف کی نویں صورت پیش کرتے ہیں: (۹) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا، حکاہ السیدقلیلا‘‘  اوردسویں صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (۱۰) لائق وپسندیدہ بات میں قدر لائق سے زیادہ اٹھا دینا، تعریفات علامہ شریف میں ہے: الاسراف صرف الشی فیما ینبغی زائد علی ما ینبغی بخلاف التبذیر فانہ صرف الشی فیما لاینبغی۔ اسراف جہاں خرچ کرنا مناسب ہو وہاں زائد خرچ کردینا ہے اور تبذیر یہ ہے کہ جہاں خرچ کی ضرورت نہ ہو وہاں خرچ کیا جائے (التعریفات ص۱۰) آگے علامہ شریف کے ذریعہ بیان کردہ لفظ ینبغی، لاینبغی پر وضاحت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’اقول ینبغی کا اطلاق کم از کم مستحب پرآتا ہے اوراسراف مباح خالص میں اس سے بھی زیادہ ہے، مگر یہ کہ جو کچھ لاینبغی نہیں سب کو ینبغی مان لیں کہ مباح کا موں کو بھی شامل ہوجائے ولیس ببعید، اورعبث محض اگرچہ بعض جگہ مباح بمعنی غیر ممنوع ہو مگر زیر لاینبغی داخل ہے تواس میں جو کچھ اٹھے گا اس تفسیر پر داخل تبذیر ہوگا۔‘‘ گیارہویں اورآخری صورت کو یوںنمایاں فرمایا: (۱۱) بے فائدہ خرچ کرنا، قاموس میں ہے: ذہب ماء الحوض سرفا فاض من نواحیہ (جب حوض کا پانی اس کے کناروں سے بہہ نکلے تو کہتے ہیں کہ پانی سرف چلا گیا)تاج العروس میں ہے:: قال شمر: سرف الماء ماذہب منہ فی غیر سقی ولانفع یقال اروت البئر النخیل وذہب بقیۃ الماء سرفا (شمر نے کہا :سرف الماء کے معنی یہ ہیں کہ پانی سیرابی اور نفع کے بغیر ضائع ہوگیا۔ کہتے ہیں اروت البئر النخیل وذہب بقیۃ الماء سرفا) تفسیر کبیر وتفسیر نیشاپوری میںہے: (ترجمہ) جاننا چاہئے کہ اہل لغت کا اسراف کی تفسیر میں اختلاف ہے اس میں دو قول ہیں، ابن العربی نے کہا کہ السرف جو حد ہے اس سے زیادہ خرچ کرنا، شمر نے کہا کہ سرف سے مرادیہ ہے کہ مال کا منفعت کے غیر میں خرچ ہونا‘‘  اسراف کی گیارہ صورتیں بیان کرلینے کے بعد امام احمد رضا فیصلہ کن انداز میں بڑی محقق بات تحریرفرماتے ہیں: ’’ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ونافع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اس عبداللہ کی تعریف ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گھڑی فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد تمام جہان سے علم میںزائد ہے اور جو ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورث علم ہے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنہم اجمعین‘ (فتاویٰ رضویہ ،ص: ۶۹۶، ج:۱) امام احمد رضا قدس سرہ نے تبذیر کے باب میں علما کے دو قولوں کی وضاحت کی ہے (۱)تبذیر اور اسراف دونوں کے معنی ناحق صرف کرنا ہے، امام نے اسی کو صحیح کہا ہے اور یہی قول عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس اور عامہ صحابہ کا ہے پھر اس کے بعد امام احمد رضا نے ابن جریر، نہایہ اثیر،مختصر امام سیوطی، قاموس المحیط کی عبارتیں بطورحوالہ نقل کی ہیں۔(۲)تبذیرواسراف میں فرق ہے،تبذیرخاص معاصی میںمال بربادکرنے کانام ہے دونوں میں فرق وتبائن کے حوالے سے بھی امام نے ابن جریر، تاج العروس اور عنایۃ القاضی وغیرہا کتابوں سے اقتباس پیش فرماتے ہیں۔  مسئلۂ اسراف وتبذیر سے متعلق امام احمدرضا قدس سرہ کی تحقیقات انیقہ سے استفادہ کرنا، اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا، اسراف وتبذیر کی قباحت وشناعت سے اپنا دامن پاک وصاف رکھنا اور اعتدال ومیانہ روی کے ساتھ زندگی میں ہر عمل خیر کرنا امت مسلمہ کے لیے ہر فرد کے لیے لازمی وضروری ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔آمین۔

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
دماغ نہیں دل کومسخرکیجیے

دماغ نہیں دل کومسخرکیجیے

دماغ نہیں دل کومسخرکیجیے شاعر مشرق علامہ ڈاکٹراقبال دعوت وتبلیغ کے متعلق اپنے ایک دوست کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں۔ ٭’’قبولِ اسلام میں اصل چیزدل ہے جب دل ایک تبدیلی پررضامندہوجاتاہے اورکسی بات پرقرارپکڑلیتاہے توپھرباقی تمام جسم اس کے سواکچھ نہیںکرتاکہ وہ اس تبدیلی کی تائیدکے لیے وقف ہوجائے ۔ہمیں اسلام کے قدیم وجدیدمبلغو ں میں ایک واضح فرق نظرآتاہے ۔قدیم مبلغوں کاوارغیرمسلموںکے دلوںپرہوتاتھاوہ اپنی للہیت ،بے نفسی ،خوش خلقی اوراحسان ومروت کی جادواثرادائوں سے دلوں کوگرویدہ کرتے تھے اوراس طرح ہزارہالوگ ازخود بغیرکسی بحث وتکرارکے ان کے رنگ میں رنگ جاتے تھے مگرجدیدمبلغوں کاسارازوردماغ کی تبدیلی پرصرف ہوتاہے۔وہ صداقت اسلام  پرایک دلیل دیتے ہیں مقابلے میں دوسری حجت غیرمسلم پیش کردیتے ہیںاس پربحث وتکرارشروع ہوجاتی ہے اورہدایت ختم ہوجاتی ہے ‘‘۔  ٭’’مبلغین اسلام کودلوں کومتاثرکرنے کے لیے نکلناچاہیے یادماغوںکو؟۔ا س فیصلے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ ہم فطرت کی روش کی پیروی کریں۔غورکرنے سے معلوم ہوگاکہ فطرت اپنی فتوحات حاصل کرنے کے لیے اپناتعلق ہمیشہ دلوں سے جوڑتی ہے ۔فطرت کھانے میں لذت پیداکرتی ہے اورآ پ اسے بے اختیارکھاجاتے ہیں۔اس وقت ایک بھی شخص دماغ سے یہ نہیںپوچھتاکیایہ کھاناطبی لحاظ سے مفیدہوگا۔آ پ کہیںجارہے ہوتے ہیںکہ ناگہاں پھولوں کی ایک خوشنمازمین اورلب جوکاایک حسین نظارہ سامنے آجاتاہے آپ وہاں بے اختیاربیٹھ جاتے ہیںوہیں ٹھنڈی ہواکاایک دلنواز جھونکاآتاہے اورآپ کومیٹھی نیندسلادیتاہے ۔اس وقت کوئی بھی شخص دماغ سے یہ نہیں پوچھتاکہ مجھے سوناچاہیے یانہیں۔مختصریہ کہ فطرت ہرکام میں لوگوں کوگرویدہ کرکے مطلب نکالتی ہے وہ دماغوں کی طر ف کبھی متوجہ نہیں ہوتی ۔اسلام چونکہ سراسرنورفطرت ہے اس واسطے مبلغین کوچاہیے کہ اخلا ق ومحبت کی گہرائیوں سے دلوںکواس طرح شکارکریں کہ ان میں سرکشی اورانکارکی سکت ہی باقی نہ رہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ مبلغ اسلام ،اسلامی کیرکٹرکی عظمت کے مالک ہوں تاکہ سرکش سے سرکش آدمی بھی ان کے سامنے اپنی گردنیں جھکادیں۔باقی رہے دماغی مباحث اورعقلی تکرارتواس سے نہ تودل مطمئن ہوسکتے ہیں،نہ منقلب ہوسکتے ہیںاورنہ فطرت را م ہوسکتی ہے‘‘۔ ’’میںسمجھتاہوں کہ دل اوردماغ کے کام کرنے کے طریقوں میں بہت فرق ہے ۔دماغ اکثراوقات ہزارہامضبوط دلائل کومستردکردیتاہے اوران کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتالیکن دل اس کے برعکس بعض اوقات کمزورسے کمزورچیزوں سے اس قدر متاثرہو جاتاہے کہ صرف ایک ہی جھٹکے میںزندگی کاسارانقشہ بدل جاتاہے۔ قبول اسلا م کاتعلق جس قدردل سے ہے،دماغ سے نہیں۔اصل بات جومبلغ کومعلوم ہوناچاہیے یہ ہے کہ وہ کون سے نشترہیںجن سے دل متاثرہواکرتے ہیں۔کفارومشرکین کے انقلاب حیات کی ہزارہا مثالیں تاریخ اسلام میں موجودہیں ۔ہم دیکھتے ہیںکہ ایک شخص اپنے حالات کے تحت ایک خیال یاایک مذہب پرچٹان کی طرح قائم ہوتاہے ناگہاں غیب سے اس کے دل پر ایک نشترچلتاہے اورچشم زدن میں اس کی زندگی کی تمام گزشتہ تاریخ بدل جاتی ہے۔صداقت اسلام کے عقلی دلائل توآپ کے پاس بہت ہیںمگرقلبی دلائل کم ہیںاگرآپ نومسلموںکے پاس جائیںتووہ بتائیں گے کہ اسلام کی وہ کونسی بے ساختہ اداتھی جوان کے دل کوبھاگئی۔اگران کے بیانات ایک کتاب میں جمع کردیے جائیںتومجھے یقین ہے کہ انقلابات کی بالکل نئی دنیامبلغین کے سامنے آجائے گی اوراشاعت اسلام کے لیے ایسے نئے دلائل یاجدیدہتھیارمل جائیں گے جن سے اسلام کاموجودہ کتب خانہ خالی ہے‘‘۔ (دعوت اسلام:اقوام عالم اوربرادران وطن کے درمیان،مصنفہ:پروفیسرمحسن عثمانی )  

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب کی حاضر جوابی

علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب کی حاضر جوابی

علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ معترض کے اعتراض کو ہی اُس اعتراض کا جواب بنا دیا کرتے تھے۔ ۲۰۱۲ ء کی بات ہے جب چلتی ٹرین پر نماز پڑھنے کا مسئلہ ٹرینڈ میں چل رہا تھا،میں حضرت کی خدمت میں موجود تھا ، حضرت کسی سے مخاطب تھے : ’’ایک صاحب کافون آیا تھا ، مفتی صاحب کے بارے میں بات کر رہے تھے ، کہتے کہتے کہنے لگے : مفتی نظام الدین اَب مفتیِ اعظم ہند بنا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا : یہ تو بہت اچھی بات ہے ، آدمی اپنے اسلاف کی طرح نہیں بننا چاہے گا تو اور کسی کی طرح بنے گا۔ وہ بے چارے فون رکھ دیے ۔ (مسکرا کر فرمایا ) ۔‘‘ دیکھا آپ نے ، معترض کے اعتراض کو ہی اُس اعتراض کا جواب بنا دیا ۔ اسی طرح کی ایک عبارت ’’عرفان مذہب و مسلک ‘‘میںموجود ہے : ’’ایک سفرِممبئی کے دوران مجھ سے ایک ثقہ راوی نے بیان کیا کہ فلاں صاحب نے اُس فتویٰ (فتو اے حجۃ الاسلام) کے پڑھنے کے بعد مجھ سے ایک ملاقات و گفتگو کے دوران کہا کہ :مسلک اعلیٰ حضرت کا خون ہو گیا ۔ اُس فتوی کو فتاوی حامدیہ سے نکال دنیا چاہیے ۔‘‘( صفحہ :۳۴) یہ معترض کا اعتراض تھا، وہ کہ رہا تھا کہ حضور حجۃ الاسلام نے مسلک اعلیٰ حضرت کا خون کر دیا ہے ، اس لیے اب وہ فتویٰ ، فتاوی حامدیہ سے نکال دینا چاہیے ۔  اب دیکھئے علامہ یاسین اختر صاحب معترض کے اِس اعتراض ہی کو کس طرح جواب بناتے ہیں ۔ ( ہر کوئی جانتا ہے کہ حضور حجۃ الاسلام حضرت مفتی حامد رضا بریلوی شہزادۂ اکبر حضور اعلیٰ حضرت کا فقہی دنیا میں کتنا اونچا مقام ہے ، اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کے فروغ میں کتنا اہم کردار ہے ، اگر اُن کے فتوے سے کسی مسلک کا خون ہوتا ہے تو وہ مسلک ، فرضی مسلک ہی ہو سکتا ہے ، مسلک ِاعلیٰ حضرت کبھی نہیں ہو سکتا ) علامہ فرماتے ہیں : ’’جس فرضی مسلک کا خون ، اعلیٰ حضرت کے حکم سے حجۃ الاسلام و صدر الشریعہ اور دیگر خلفاے اعلیٰ حضرت نے کیا ہے ، اُس کا خون ہونا ہی چاہیے اور بار بار ہونا چاہیے ۔‘‘ دیکھا آپ نے ؟ کسی خوبی کے ساتھ معترض کے اعتراض کو اعتراض کا جواب بنا دیا ، کہ خون تو کیا ہے مگر مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نہیں، بلکہ فرضی اور خود ساختہ مسلک کا، جو بعض تشدد پسند نے بنا رکھا ہے ، لہٰذا فتاویٰ حامدیہ سے اُس فتوے کو نکالنے کی حاجت نہیں ، اگر فرضی مسلک کا خون ہوتا ہے تو بار بار ہوتا رہے ۔ علامہ کی یہ خوبی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ شاید آپ کے ذہن میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا وہ مناظرہ آگیا ہوگا جو قراءت خلف الامام کے تعلق سے لوگوں نے آپ سے کیا تھا ۔ مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب سے پہلی ملاقات

علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب سے پہلی ملاقات

 جنوری کا مہینہ تھا اور سن ۲۰۱۰ ، ہم طلبہ کی جانب سے دار العلوم علی حسن اہل سنت میں یوم جمہوریہ کا پروگرام منعقد تھا ، جس کی سر پرستی استاد محترم حضرت مولانا نور القمر ابن رقم مصباحی کر رہے تھے ۔ ہم طلبہ میں قرطاس و قلم کی روح پھونکنے والے حضرت ہی تھے۔ مجھے یاد ہے ! طلبہ کے خطاب اور میرے خطبۂ صدارت کے بعد ، ناظم صاحب انیس بھائی نے استادِ محترم کو دعوتِ سخن دیتے وقت آپ کے القاب میں ایک لفظ ’’رئیس القلم‘‘ استعمال کیا تھا، اور مائک پر آتے ہی حضرت نے یہ وضاحت کی تھی :   ’’میں رئیس القلم نہیں ، میں قلم کا ادنیٰ خادم ہوں ، ہندوستان میں اِس وقت ایک ہی رئیس القلم ہیں اور وہ ہیں علامہ یاسین اختر مصباحی دام ظلہ۔‘‘ میں ابھی جماعت ِرابعہ میں تھا، اور جماعت ِثالثہ سے میں نے با ضابطہ اپنے مطالعتی دور کا آغاز کیا تھا ۔ رئیس القلم علامہ یاسین اختر مصباحی کا نام اِس سے پہلے کئی کتابوں پر دیکھ چکا تھا ، ایک کتاب بھی پڑھی تھی اُن کی ۔ مگر وہ قلمی دنیا کے بادشاہ ہیں ، یہ پہلی بار معلوم چلا تھا۔  ستمبر ۲۰۱۰ ء میں میرا داخلہ جامعہ اشرفیہ میں ، مطلوبہ جماعت ، جماعتِ خامسہ میں ہو گیا ، استادِ محترم ( ابن رقم مصباحی ) نے یہ کہہ کرا شرفیہ بھیجا تھا کہ چھٹیوں میں گھر نہیں آنا ہے ، بلکہ کبھی دہلی ، کبھی لکھنو ، کبھی کہیں اور علمی سفر پر نکل جانا ہے ۔ اس لیے نومبر ۲۰۱۰ ءمیں عید الاضحیٰ کی چھٹیاں منا نے دہلی جانا ہوا تھا ، ساتھ میں درگاہ نیلور شریف کے چشم و چراغ سید مرتضیٰ (قادری مصباحی ازہری) بھی تھے۔ گھومنے ٹہلنے اور اردو بازار سے کتابیں خریدنے کے بعد ذاکر نگر جاکر دار القلم دیکھنےاور علامہ سے ملاقات کرنے کا ارادہ تھا، عید الاضحی کی نماز قادری مسجد کے پہلے منزلے پر ادا کی گئی ، نگاہ شوق نے تاڑ لیا تھا کہ علامہ پہلی صف میں بیٹھے ہیں ۔   چوں کہ میں ویزن میں جو کہ جامِ نور کی ٹیم نکالا کرتی تھی ، علامہ کی تصویر دیکھ چکا تھا، اِس لیے نمازکے بعد دست بوسی کی ، اور آہستے سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ہم اشرفیہ سے آئیں ہیں یہ پہلے بتا چکا تھا ، حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے ، آئیے ۔ علامہ اپنے کمرے میں چلے گئے اور میں سید صاحب کی طرف مڑکر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوا : ’’یار تم خانقاہی لوگوں کا الگ ہی فنڈا ہے ، دوسروں سے ہے ہاتھ تو چمواتے ہو ، مگر خود کسی کا نہیں چومتے ، گرچہ کوئی کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو ۔‘‘ حالاں کہ سید صاحب ایسے نہیں تھے ، وہ تو ہم سے زیادہ مہذب اور با ادب تھے ، اِس لیے اُنھوں نے اچمبا ظاہر کرتے ہوئےپوچھا : ارے بھائی کسی کا ہاتھ میں نے نہیں چوما ۔ راقم : علامہ یاسین اختر صاحب کا۔ سید صاحب : وہ کب آئے ؟ اور تو کب ملا اُن سے؟  راقم : ابھی جو تمھارے سامنے سے گئے ، جن سے میں بات کر رہا تھا ۔ یہ سن کر وہ الٹے پاؤں واپس گئے ، دست بوسی کر کے واپس آئے اور کہنے لگے : ’’واقعی یارا کیا سادگی ہے ، جو حضرت سے واقف نہ ہو گا وہ کبھی پہچان نہ پائے گا۔‘‘ یہ تھی علامہ کی سادگی ، جو اچھے اچھے کو حیران کر دیتی تھی ، اُس دن عید کا دن تھا ۔ علامہ صاف ستھرا سفید لباس پہنے تھے ، جو پرانا ہونے کے سبب پیلا پڑ گیا تھا، واللہ بتا رہا ہوں پاجامہ کی ترپائی ایک جگہ سے کھلی تھی اور لگ بھگ ڈھائی مربع انچ دامن میں سراخ تھا۔ اس سادگی پہ کیوں نہ قربان جائیے مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
وقت میں برکت کیسے ہو؟

وقت میں برکت کیسے ہو؟

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے وقت میں برکت ہو ، آپ کچھ وقت نکال کر کچھ اچھی کتابیں پڑھ لیں ، کچھ لکھ ہیں ۔ اپنے والدین کو وقت دیں ، بیوی ، بچوں کو اور رشتے داروں کو وقت دیں ، کچھ نفلی عبادت کر لیں ، گناہوں سے بچ رہیں، صبح جلد اٹھیں ، رات کو جلد سو جائیں ، نماز با جماعت پڑھیں ، کچھ وظائف بھی کر لیں ، تو آپ اسمارٹ فون کا استعمال کم سے کم کریں ۔   اور اِس کے لیے آپ یہ طریقہ اپنا سکتے ہیں : سوشل میڈیا کا استعمال صرف اور صرف دن میں ایک بار کریں ، وہ بھی ضرورتاً۔   یوٹیوب ، فیس بک، انسٹا گرام ، ٹیلی گرام ، اسی طرح دیگر غیر ضروری ایپس (Apps) کے نوٹی فیکیشن Notifications بند کر دیں ۔   کا لنگ ، میسجنگ اور وہاٹس اپ کا ، اسی طرح گوگل پے،فون پے ، پے ٹی ایم کانوٹی فیکیشن ( Notifications )آن رکھیں کہ اِن کی ضرورت پڑتی ہے ۔   تاہم وہاٹس اپ میں غیر ضروری گروپ سے   Remove ہو جائیں ۔   اور اگر Remove نہیں ہوتے تو، کسی بھی Contact کو سلیکٹ کرکے Select all کر لیجیے ، اُس کے بعد سب کو Mute کر دیجیے، اور پھر جو ضروری گروپ (Group)اور کونٹیک نمبرز ( Contact Numbers )ہیں ان کو Unmute کر دیجیے۔   ایسا کرنے سے یہ ہوگا کہ موبائل آپ کو کنٹرول نہیں کرے گا، بلکہ آپ موبائل کو کنٹرول میں رکھیں گے۔   اور برائے کرم ! PDF کے بجائے حقیقی کتاب ہی خرید کر پڑھیں ۔ مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
قلم کے بارے میں

قلم کے بارے میں

(۱)  قلم کی نوک پر رکھوں گا اِس جہاں کو میں  زمین لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں (ممتاز) جس قلم کی قسم ، ساری کائنات بنانے والے رب نے کھائی ہو ، اُس میں کوئی بات ضرور ہوگی ۔  تاریخ کا سرسری جائزہ لینے پر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ دنیا میں جو بھی انقلاب آیا ہے ، وہ یوں ہی نہیں آیا ، قلم نے لایا ہے۔ یہ قلم قیامت تک اپنا کام کرتا رہے ، قلم کار پیدا ہوتے رہیں گے۔ (۲)  حضرت  قتادہ فرماتے ہیں : قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، اگر قلم نہ ہو تو دین قائم نہ رہے ۔  (تفسیر طبری ، زیر آیت اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ) یہ قلم ہی تھا،جس نے قرآن محفوظ کیا ۔  یہ قلم ہی تھا جس نے احادیث وسیر جمع کیے۔  یہ قلم ہی تھا جس نے فقہی مسائل لکھے۔  یہ قلم ہی تھا جس نے تصوف کی باتیں ہم تک پہنچائیں۔ حضرت قتادہ نے سچ ہی کہا ہے کہ قلم نہ ہو دین قائم نہ رہ سکے۔ (۳) ہمیں معلوم ہے کہ لوگ کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔  تین تین گھنٹہ ،  پانچ پانچ گھنٹہ ،  سات سات گھنٹہ وہ موبائل پر فلمیں ، ڈرامے اور ریلز دیکھتے ہیں ،  مگر کوئی کتاب اگر ، بیس پچیس منٹ بھی پڑھنی پڑ جائے ، تو ایسے بے زار ہوتے ہیں کہ اسے پھینک کر ہی دم لیتے ہیں۔ ایسی سچویشن۔ (situation)میں ہم قلم کاروں ذمے داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔  اب ہمیں اسلوب آسان سے آسان اور تحریر مختصر سے مختصر رکھنی ہوگی ،  اور اتنی جاذب و پرکشش کہ قاری ، نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھنے پر مجبور ہو جائے ۔ مہائمی

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n

Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n

Logo.n ke baare mein husn-e-zan rakhe.n   Ek gaao.n mein ek designer rehta tha,  Apne kaam mein bada maahir tha,  Khuubsuurat design banaata,  Aur mehenge daamo.n mein bechta.    Ek din ek saahib unke paas aae  Aur unhe.n yehh mashwara dene lage:    "Tum bohot maal daar ho, Tumhaara dhanda bhi khuub chalta hai, Tum ghareebo.n ki madad kyu.n nahi.n karte, Apne gaao.n ke qasaai ko dekho! Woh gar che kuch ziyaada nahi.n kamaata,  Magar har roz fuqra ko muft mein gosht taqseem karta hai."   Yehh sun kar designer muskuraaya,  Is ke ‘alaawa usne kuch nahi.n kaha.  Us ka yeh rawaiyya dekh kar woh saahib taish mein aagae, Waha.n se laute, Aur saare gaao.n mein yeh khabar phaila di ki Designer bada kanjuus aur bakheel hai.   Jis ka nateejah yeh hua ki  Gaao.n waale us se nafrat karne lage. Kuch waqfe ba’d jab woh beemaar padha, To kisi ne uski ‘ayaadat na ki, Na hi kisi ne koi tawajjo di.   Usne baqiyah zindagi tanhaai mein guzaari Aur usi haal mein us ka inteqaal ho gaya.   Din yu.n hi guzarte rahe. Ab qasaai ne bhi gosht taqseem karna tark kar diya tha.   Logo.n ne jab us se iska sabab puucha to woh kehne laga: "Woh designer hi mujhe rupe deta tha, Taaki mein gosht khareedu.n aur fuqra mein taqseem karuun.  Us ke inteqaal ke ba’d rupe milne band hogae  To gosht kaha.n se laata..."    Is waaqi’e se hame.n sabaq milta hai ki Logo.n ko zaahir-bee.n nahi.n hona chaahiye  Ki jo dekha usi par yaqeen kar liya, Kyu.n ki kuch log parde mein rehna pasand karte hain, Woh nahi.n chaahte ki logo.n ko unki neki ka pata chale.    Isi tarah ek martaba Hazrat ‘Umar ؓ ne yeh baat note ki ki  Hazrat Abu Bakr Siddeeq ؓ har roz namaaz-e-fajr ke ba’d kahi.n jaate hain.    Unhe.n laga shaayad Hazrat Abu Bakr ؓ ne duusri shaadi kar li hai. Ek roz unho.n ne aap ka peecha kiya; Ki kuch ahwaal ma’luum kare.n.   Unho.n ne dekha ki  Abu Bakr ek kamre mein daakhil hue  Wahaa.n kuch der thehre aur phir waapas laut aae.   Jab Hazrat Abu Bakr ؓ ko rozaana yahi karta dekha, To Hazrat ‘Umar ؓ ko bhi yaqeen ho gaya ki Abu Bakr ؓ jo bhi karte ho.nge theek hi karte ho.nge. Ab Hazrat ‘Umar ne socha kyu.n na Abu Bakr ؓ ke is raaz ka pata lagaaya jaae.   Is liye woh Us ghar ke paas poho.nche,  Darwaaza khat-khataaya,  Saamne ek buudhi ‘aurat khadi thi.  Hazrat ‘Umar ؓ ne us se  Puucha:   "Yeh aadmi jo yahaa.n aata hai  Yahaa.n aakar kya karta hai?"   Budhiya ne kaha: "Sach kahuu.n to beta mein ise pehchaanti tak nahi.n.    Woh rozaana yahaa.n aata hai, Jhaaduu lagaata hai, Mera khaana paka deta hai Mere kapde bhi dho deta hai Aur baghair kuch kahe Chala jaata hai."   Yeh sun kar Hazrat ‘Umar ؓ apna taareekhi jumla kehte hain: "Abu Bakr! Aapne to apne ba’d waalo.n ko thaka daala." (Aap ke ba’d koi aap sa banna chaahe to na ban paaega.)   mahaaimi

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
Qalam ke baare mein

Qalam ke baare mein

(1)   Qalam ki nok par rakhuu.n ga is jahaa.n ko main Zamee.n lapet ke rakh duu.n ki aasmaan ko main (Mumtaaz)   Jis qalam ki qasam, saari kaainaat banaane waale Rab ne khaai ho, us mein koi baat zaruur hogi.   Taareekh ka sarsari jaaiza lene par aap ko pata chal jaaega ki duniya mein jo bhi inqilaab aaya hai,  Woh yu.n hi nahi.n aaya, qalam ne laaya hai.   Yeh qalam qayaamat tak apna kaam karta rahe , qalamkaar paida hote rahe.nge.   (2)   Hazrat Qataada farmaate hain:   Qalam Allaah ki bohot badi ni'mat hai, agar qalam na ho to deen qaaim na rahe.   (Tafseer-e-Tabri, zair-e-aayat Al-Lazii 'Allama Bil-Qalam)   Yeh qalam hi tha, jis ne Quraan mahfuuz kiya. Yeh qalam hi tha, jis ne Ahaadees-o-Sair jama’ kiye. Yeh qalam hi tha, jis ne Fiqhi masaail likhe. Yeh qalam hi tha, jis ne Tasawwuf ki baate.n ham tak poho.nchaaee.n.   Hazrat Qataada ne sach hi kaha hai ki qalam na ho to deen qaaim na reh sake.   (3)   Hame.n ma’luum hai ki log kitaabo.n se duur hote ja rahe hain.  Teen teen ghante, Paanch paanch ghante, Saat saat ghante woh mobile par films, drama aur reels dekhte hain, Magar koi kitaab agar, bees pachees minute bhi padhni pad jaae, To aise be-zaar hote hain ki use phenk kar hi dam lete hain.   Aisi situation mein ham qalam kaaro.n ki zimmedaariyaa.n aur bhi badh jaati hain.   Ab hame.n usluub aasaan se aasaan aur tehreer mukhtasar se mukhtasar rakhni hogi, Aur itni jaazib-o-purkashish ki Qaari, na chaahte hue bhi padhne par majbuur ho jaae.   Mahaaimi.

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
عید الاضحیٰ

عید الاضحیٰ

  عیدالاضحیٰ عید کیا ہے؟ ہمیں سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ عید کہتے کس کو ہیں،تو سنیے: عیدکا لفظ ’’عود ‘‘سے بنا ہے، عودکے معنی ہیں بار بار آنا ،کیوں کہ عید  بار بار آتی ہے اور ہر سال عید منایا جاتا  ہے اس لیے عید کو عید کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں دو طرح کی عید منائی جاتی ہے، ایک ’’عید الفطر‘‘  اور دوسری ’’عید الاضحیٰ‘‘۔ ’’عید الفطر‘‘ رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اسے کہتے ہیں اور دس ذوالحجہ کو جو عید منائی جاتی ہے ،جس میں قربانی کی جاتی ہے، اسے عیدالاضحیٰ کہتے ہیں۔چوں کہ اس دن قربانی کی جاتی ہےاورکے زیادہ تر گھروں  میں بکروں  کی قربانی ہوتی ہے ، اس لیے ہندوستان   اور ان ملکوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہےاس عید کو  ’’بکراعید‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ’’عید الاضحیٰ‘‘ میں دو چیزیں ہوتی  ہیں ایک حج  کرنا اور دوسری اللہ  کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنا۔ قربانی کیا ہے؟ قربانی کا لفظ،’’ قربان‘‘ سے بنا ہے اور ’’قربان‘‘ قرب ‘‘سے ۔قرب کے معنی ہوتے ہیں نزدیکی۔اور اسلام میں قربانی کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں نچھاور کرکے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ یعنی اگر کوئی خود کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کے لیے کوئی  بھی چیز  راہِ خدا میں خرچ کرے تو اسے قربانی کہا جائے گا۔ یعنی ہر مسلمان جب چاہے کوئی بھی چیز صدقہ کر کے قربانی  یعنی اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اسلام میں قربانی ایک خاص معنی کے لیے  بھی بولا جاتا ہے۔اور وہ ہے دس ذوالحجہ کو اللہ کے نام  سےکسی جانور کو قربان کیا جائے۔یہ قربانی بڑی اہمیت رکھتی ہے،اس کا  اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تین دن قربانی کرنے کے لیے خاص کر دیا ہے،۱۰-۱۱-۱۲ – ذوالحجہ۔ اور ان دنوں میں  اللہ تعالیٰ کو دوسری تمام عبادتوں سے زیادہ قربانی کا عمل پسند ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ہم  ۳۰۰۰۰؍ہزار کا بکرا لانے کی بجائے ان روپیوں سے کسی غریب کی مدد کر دیں ،تو وہ اپنی سوچ میں بالکل غلطی پر ہے۔اس طرح کے صدقات کے لیے سال  کےباقی دن ہیں ،ان دنوں میں اس طرح کا صدقہ کرنا بہت مفید ہے اور اجر وثواب کا باعث ہے۔ ان دنوں میں کسی جانور کی قربانی کرنا ہی اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قربانی نہ کر کے اس کی رقم صدقہ کردے تو قربانی سےبری الذمہ نہیں ہوگا ،بلکہ  اس پر قربانی واجب ہی رہے گی۔ قربانی کی ابتدا یوں تو قربانی کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل سے ہوئی تھی، اس کا مختصر قصہ یہ ہے افزائش نسل کے لیے ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن سے اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے ہونا طے پایا تھا،چوں کہ قابیل کی بہن زیادہ خوب صورت تھی اس لیے قابیل کا دل اُس پر آ گیا، قابیل کے دل میں یہ لالچ پیدا ہوگئی کہ خود وہی اپنی بہن سے شادی کر لےاور ہابیل کی شادی اس  سے  نہ ہونے دے۔ یہ بات جب حضرت آدم علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو انھوں نے  قابیلکو سمجھایا ،جب قابیل نہ ماناتواُن  دونوں سے کہا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کروں جس کی قربانی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرلے قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ اس وقت قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کا جانور بیچ میدان میں رکھ دیا جاتا تھا،جس کی قربانی قبول ہوناہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے حکم پر ہابیل اور قابیل دونوں نے اپنی اپنی قربانی کا جانور میدان میں کھڑا کردیا،آسمان سے آگ اتری اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا، اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی ہےاور قدرت نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ ہابیل  کا نکاح قابیل کی بہن سے ہوگا، مگر قابیل کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی،حسد کی آگ اس کے دل میں جوش مارنے لگی جس کا انجام یہ ہوا کہ  اس نے ہابیل کا قتل کردیا۔         یہ تھی روے زمین پر سب سے پہلی قربانی۔ اور سب سے  پہلا قتل بھی، جونفسانی شہوت کی وجہ سے پیش آئی۔ مذہب اسلام میں دسویں ذوالحجہ کو جو قربانی کی جاتی ہےوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس کا مختصر قصہ یہ ہے ہیں:   حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۱۲۰؍ سال اور آپ کی بیوی کی عمر ۹۰؍ کی ہوگئی تھی، مگر ابھی تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔بڑی دعا اور گریہ و زاری کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں ایک نیک فرزند عطا فرمایا، جب حضرت اسماعیل علیہ السلام  کچھ بڑے ہو  گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے،لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام  سمجھ گئےکہ اللہ تبارک وتعالیٰان کے بیٹے اسماعیل کی قربانی چاہتا ہے۔  آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بتاتے ہیں: ’’ بیٹا میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں۔‘‘  سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام یہ  سنتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ رب کی مشیت کیا ہے،لہذا اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے  ہیں ۔ ’’ابا حضور اور اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو جو حکم دے رہا ہے آپ اسے کرگزریں ،ان شاء اللہ تعالیٰ آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے جاتے ہیں ذبح کرنے کے لیے، سنا آپ نے ؟ ایک باپ اپنے بیٹے کو صرف اور صرف رب کی رضا حاصل کرنے کے لیےذبح کرنے لے جارہا ہے،حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والدِ بزرگ وار سے عرض کرتے ہیں: ’’ابا حضور آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا چہرا دیکھ  کرآپ کوترس آجائے،آپ کی محبت جاگ جائے اور آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکیں۔‘‘ ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی  عمربہت زیادہ نہیں ہوئی ہے،مگر باپ کا ادب کس طرح  کر رہے ہیں،کہیں باپ رب تعالیٰ کے حضور رُسوا نہ ہوجائے، یہی سوچ کر خود ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ سوچنے کی بات ہےکہ کیا اطاعتِ والدین کی کوئی اور ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے :                             ع یہ  فیضان نظر تھا  یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کوآداب فرزندی آج ہمارا کیا حال ہے؟ہم اپنے والد کی ایک بات سننے کو تیار نہیں ہیں،اگر باپ کوئی نصیحت کرتا ہےتو چہرے ناراضگی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں،دوستوں سے تو ہنس بول کر رہتے ہیں، مگر والدین سے کٹے کٹے گھومتے ہیں،محض اس لیے کہ ان بیوی خوش رہے اپنے والد کو الٹا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں،کچھ تو والدین کو ڈانٹ دیتے ہیں،کچھ تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیں کہ انھیں مار بیٹھتے ہیں،کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو انھیں گھر سے بھی نکال دیتے ہیں۔ ہائے افسوس!!! جن والدین کے سامنے ’’اُف‘‘ کہنے کی بھی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ہے،ہمارا نوجوان طبقہ  ان کے ساتھ کس قدر غیر مہذب برتاو کر رہا ہے۔ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعے سے سبق لینا چاہیے،اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر سال عید ہمیں اپنے والدین کی عظمت و رفعت کا پتہ بتانے آتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ خیر ،تو میں کہہ رہا تھا: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے یہ کہنے کے بعد کہ ’’ابو آپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیتے ہیں تاکہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس عظیم قربانی  کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہ جائیں ، اُدھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر چھری چلاتے ہیں ،اِدھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ جنت سے ایک دنبہ لے جاکر اسماعیل کی جگہ پر رکھ دو، چھری چلتی ہے  مگر اسماعیل کے بدلے  جنّتی دنبہ ذبح ہو جاتا ہے ، بےقرار باپ جب آنکھوں سے پٹی کھولتا ہے کہ دیکھیں اس کے بچے کا کیا حال ہوا،ا تو دیکھتے ہیں کہ اسماعیل دور کھڑے مسکرا رہے ہیں اور اورایک دنبہ  ان کی جگہ پر ذبح ہو گیا ہے، رب تبارک و تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ہے کہ ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اسلام میں حضرت اس ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کو برقرار رکھا گیا ہے اور دس ذوالحجہ کو ہر مسلمان جو عقل والا ہو اور ضرورت سے زیادہ اتنا مال رکھتا ہوں جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ جون 2025ء میں اگر کسی کے پاس 65 سے 70 ہزارر وپے یا اس کی مقدار کوئی چیز ہو جو حاجت اصلیہ سے یعنی ضرورت سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی کا پیغام اسلام میں جو بھی تہوار  ہے ان میں غریبوں کی مدد کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے، دیکھیے رمضان میں لوگ زکاۃ دیتے ہیں ،صدقۂ فطردیتے ہیں؛ تاکہ غریبوں ،مسکینوں ، حاجت مندوں کی مدد ہوجائے اور وہ اپنے بال بچوں کے لیے کپڑے راشن وغیرہ خرید سکیں، اسی طرح  عید الاضحیٰ یعنی بکرا عید   کے موقع پر بھی اسلام نے غریبوں کو فائدہ پہنچانے کی تلقین کی  ہے؛ لہذا شریعت کا یہ مسئلہ ہے کہ جس جانور کی قربانی آپ کرتے ہیں، آپ اس کے تین حصے کریں، ایک حصے کو آپ خود رکھیں، ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو دیں، اور ایک حصہ  غریبوں،مسکینوں  کو دیں ۔  یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی پورا کا پورا گوشت خود رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے ، مگر بہتر ومستحب اور ثواب اس میں ہے کہ وہ تین حصے کرکے ایک حصہ خود اپنے لیے رکھے ،باقی دو حصوں کو وہ تقسیم کردے ،ایک حصہ اپنے رشتے داروں کو اور ایک حصہ غریبوں مسکینوں کو۔  قربانی  کا یہی پیغام ہےکہ قربانی کامفہوم ذہن میں رکھ کر اپنی پسندیدہ چیز راہِ خدا میں خرچ کرتا رہے،غریبوں کی مدد کرتا رہے، بے سہاروں کا سہارا بنتا رہے،یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرتا رہے تاکہ اسے   رب کا قرب حاصل ہوجائے ۔ حج کیا ہے؟ مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ  کو سعودی عرب کے شہر مکۂ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت(مثلاً میدان عرفات میں قیام کرنا، خانۂ کعبہ کا طواف کرنا،صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا،شیطان کو کنکریاں مارنا،سر کے بال چھلانا وغیرہ) انجام دیتے ہیں، اس مجموعۂ عبادات کو حج کہتے ہیں۔     حدیث شریف میں ہے: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ، زكاة دينا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:۸) یعنی حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے،حج مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی عبادت بھی ،یعنی حج میں مال بھی صرف ہوتا ہے اور بدن سے عبادت بھی کی جاتی ہے ۔جب کہ نماز وروزہ صرف جسمانی عبادت اور زکاۃ صرف مالی عبادت ہے۔ حج پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے یعنی ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو، بالغ ہو،  آزاد ہواور حج  کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو،ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس  اتنا مال بھی ہو جو حج کے اخراجات کےلیے کافی ہو،اوراس کی غیر موجودگی میں  اس کے بال بچوں کی کفالت کے لیے بھی کافی ہو۔ از قلم : فاروق خاں مہائمی مصباحی  

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
دنیا کا پوشیدہ پہیہ

دنیا کا پوشیدہ پہیہ

کردار:   مہائمی صاحب (دانشمند باپ) علی (7 سالہ بیٹا، تجسس بھرا) امِ علی (نرم دل ماں) راوی (پس منظر بیان کرنے والا)     ---   منظر 1: شام کا کمرہ   راوی: کمرے میں کتابوں کی خوشبو تھی، مہائمی صاحب ایک موٹی سی کتاب پڑھ رہے تھے۔ علی صوفے پر بیٹھا ٹیبلٹ پر گیم کھیل رہا تھا۔ اچانک وہ رک گیا اور ابو کی طرف دیکھنے لگا۔   علی:  ابو… ایک سوال پوچھوں؟   مہائمی صاحب: پوچھو بیٹا۔   علی: یہ دنیا کون چلا رہا ہے؟   راوی: مہائمی صاحب مسکرائے، کتاب بند کی اور علی کو پاس بٹھایا۔   مہائمی صاحب: بیٹا، دنیا کا اصل چلانے والا تو اللہ ہے… مگر دنیاوی طور پر طاقتور ملک، بڑے ادارے اور کمپنیاں دنیا کا پہیہ چلاتی ہیں۔   علی: کون سی کمپنیاں ابو؟   مہائمی صاحب: گوگل، یوٹیوب، ایمازون… یہ صرف چیزیں بیچتی نہیں، بلکہ ہماری زندگی کو قابو میں رکھتی ہیں۔   علی (حیرت سے): لیکن لوگ ان کی بات کیوں مانتے ہیں؟   مہائمی صاحب: کیوں کہ ان کے پاس پیسہ، طاقت اور سب سے بڑھ کر ہمارے بارے میں معلومات ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ہمیں کون سی چیز پسند ہے اور کس چیز پر ہم وقت ضائع کریں گے۔     ---   منظر 2: الگورتھمز کا راز   راوی: مہائمی صاحب نے علی کے کان میں سرگوشی کی، جیسے کوئی بڑا راز بتا رہے ہوں۔   مہائمی صاحب: یہ سب جادوگر نہیں بیٹا، بلکہ یہ الگورتھم استعمال کرتے ہیں۔   علی: الگورتھم؟ وہ کیا ہوتا ہے ابو؟   مہائمی صاحب: جیسے تمہاری ماں کھانے کی ترکیب بناتی ہیں کہ کھانے میں کون سی چیز کتنی اور کب ڈالنی ہے ، بالکل اسی طرح الگورتھم بھی ترکیب ہے، مگر کمپیوٹر کے لیے۔ وہ کمپیوٹر کو بتاتا ہے کہ تمہیں کیا دکھانا ہے۔   علی: یعنی جب میں کارٹون دیکھتا ہوں تو یوٹیوب یاد رکھتا ہے؟   مہائمی صاحب: ہاں، اور اگلی بار تمہیں وہی دکھاتا ہے تاکہ تم زیادہ دیر دیکھتے رہو۔     ---   منظر 3: رشتوں کی دوری   راوی: مہائمی صاحب کے چہرے پر سنجیدگی آگئی، انہوں نے کتاب میز پر رکھ دی۔   مہائمی صاحب: بیٹا، یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔   علی: کیسے ابو؟   مہائمی صاحب: جب بیٹا گھنٹوں فون پر رہتا ہے تو ابو سے بات کم ہو جاتی ہے۔ بیٹی سوشل میڈیا میں مصروف رہتی ہے تو امی کے ساتھ کچن میں بیٹھنے کا وقت نہیں ملتا۔ اور جب شوہر اور بیوی دونوں فون میں گم ہوں تو ایک دوسرے کو سننا بھول جاتے ہیں۔   امِ علی (کچن سے آتے ہوئے): ہاں علی، پچھلے ہفتے کھانے پر سب فون دیکھ رہے تھے، کسی نے بات ہی نہیں کی۔   راوی: کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ علی نے آہستہ آہستہ اپنا ٹیبلٹ میز پر رکھ دیا۔     ---   منظر 4: حل اور عزم   مہائمی صاحب (نرمی سے): بیٹا، الگورتھمز کو ہم ختم نہیں کر سکتے، لیکن ان کے غلام بننے سے بچ سکتے ہیں۔ آج سے ایک اصول بنائیں گے — کھانے کے میز پر ہم فون نہیں لائیں گے، اور ہر ہفتے ایک دن صرف گھر والوں کے لیے ہوگا۔   علی (خوش ہو کر): واہ ابو! تو ہم ان الگورتھمز کے ماسٹر بن سکتے ہیں؟   مہائمی صاحب (مسکرا کر): ہاں بیٹا، جو انسان اپنے وقت اور دماغ پر قابو رکھ لے، وہ دنیا کے پہیے کا مالک ہے۔   راوی: اس رات کھانے کی میز سب نے کچھ خاص محسوس کیا ۔ اور علی نے پہلی بار باہر جا کر ستاروں کو دیکھا۔ وہ پہلے سے زیادہ روشن لگ رہے تھے — جیسے کہہ رہے ہوں:   "جو اپنے رشتے بچا لے، وہی اصل فاتح ہے۔"

  • Writer
  • Farooque Mahaimi
Feedback Form