کردار:
مہائمی صاحب (دانشمند باپ)
علی (7 سالہ بیٹا، تجسس بھرا)
امِ علی (نرم دل ماں)
راوی (پس منظر بیان کرنے والا)
---
منظر 1: شام کا کمرہ
راوی:
کمرے میں کتابوں کی خوشبو تھی، مہائمی صاحب ایک موٹی سی کتاب پڑھ رہے تھے۔ علی صوفے پر بیٹھا ٹیبلٹ پر گیم کھیل رہا تھا۔ اچانک وہ رک گیا اور ابو کی طرف دیکھنے لگا۔
علی:
ابو… ایک سوال پوچھوں؟
مہائمی صاحب:
پوچھو بیٹا۔
علی:
یہ دنیا کون چلا رہا ہے؟
راوی:
مہائمی صاحب مسکرائے، کتاب بند کی اور علی کو پاس بٹھایا۔
مہائمی صاحب:
بیٹا، دنیا کا اصل چلانے والا تو اللہ ہے… مگر دنیاوی طور پر طاقتور ملک، بڑے ادارے اور کمپنیاں دنیا کا پہیہ چلاتی ہیں۔
علی:
کون سی کمپنیاں ابو؟
مہائمی صاحب:
گوگل، یوٹیوب، ایمازون… یہ صرف چیزیں بیچتی نہیں، بلکہ ہماری زندگی کو قابو میں رکھتی ہیں۔
علی (حیرت سے):
لیکن لوگ ان کی بات کیوں مانتے ہیں؟
مہائمی صاحب:
کیوں کہ ان کے پاس پیسہ، طاقت اور سب سے بڑھ کر ہمارے بارے میں معلومات ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ہمیں کون سی چیز پسند ہے اور کس چیز پر ہم وقت ضائع کریں گے۔
---
منظر 2: الگورتھمز کا راز
راوی:
مہائمی صاحب نے علی کے کان میں سرگوشی کی، جیسے کوئی بڑا راز بتا رہے ہوں۔
مہائمی صاحب:
یہ سب جادوگر نہیں بیٹا، بلکہ یہ الگورتھم استعمال کرتے ہیں۔
علی:
الگورتھم؟ وہ کیا ہوتا ہے ابو؟
مہائمی صاحب:
جیسے تمہاری ماں کھانے کی ترکیب بناتی ہیں کہ کھانے میں کون سی چیز کتنی اور کب ڈالنی ہے ، بالکل اسی طرح الگورتھم بھی ترکیب ہے، مگر کمپیوٹر کے لیے۔ وہ کمپیوٹر کو بتاتا ہے کہ تمہیں کیا دکھانا ہے۔
علی:
یعنی جب میں کارٹون دیکھتا ہوں تو یوٹیوب یاد رکھتا ہے؟
مہائمی صاحب:
ہاں، اور اگلی بار تمہیں وہی دکھاتا ہے تاکہ تم زیادہ دیر دیکھتے رہو۔
---
منظر 3: رشتوں کی دوری
راوی:
مہائمی صاحب کے چہرے پر سنجیدگی آگئی، انہوں نے کتاب میز پر رکھ دی۔
مہائمی صاحب:
بیٹا، یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
علی:
کیسے ابو؟
مہائمی صاحب:
جب بیٹا گھنٹوں فون پر رہتا ہے تو ابو سے بات کم ہو جاتی ہے۔ بیٹی سوشل میڈیا میں مصروف رہتی ہے تو امی کے ساتھ کچن میں بیٹھنے کا وقت نہیں ملتا۔ اور جب شوہر اور بیوی دونوں فون میں گم ہوں تو ایک دوسرے کو سننا بھول جاتے ہیں۔
امِ علی (کچن سے آتے ہوئے):
ہاں علی، پچھلے ہفتے کھانے پر سب فون دیکھ رہے تھے، کسی نے بات ہی نہیں کی۔
راوی:
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ علی نے آہستہ آہستہ اپنا ٹیبلٹ میز پر رکھ دیا۔
---
منظر 4: حل اور عزم
مہائمی صاحب (نرمی سے):
بیٹا، الگورتھمز کو ہم ختم نہیں کر سکتے، لیکن ان کے غلام بننے سے بچ سکتے ہیں۔ آج سے ایک اصول بنائیں گے — کھانے کے میز پر ہم فون نہیں لائیں گے، اور ہر ہفتے ایک دن صرف گھر والوں کے لیے ہوگا۔
علی (خوش ہو کر):
واہ ابو! تو ہم ان الگورتھمز کے ماسٹر بن سکتے ہیں؟
مہائمی صاحب (مسکرا کر):
ہاں بیٹا، جو انسان اپنے وقت اور دماغ پر قابو رکھ لے، وہ دنیا کے پہیے کا مالک ہے۔
راوی:
اس رات کھانے کی میز سب نے کچھ خاص محسوس کیا ۔ اور علی نے پہلی بار باہر جا کر ستاروں کو دیکھا۔ وہ پہلے سے زیادہ روشن لگ رہے تھے — جیسے کہہ رہے ہوں:
"جو اپنے رشتے بچا لے، وہی اصل فاتح ہے۔"