یہ ایک ایسا اسلامی تحقیقی مرکز ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں اور جدید دور کے چیلنجوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہماری تحقیق کا مقصد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں موجودہ مسائل کے حل تلاش کرنا ہے جسے ہمارے اسکالرز بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں
پوچھنے والا: نامعلوم
سوال:
جواب:
زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو تین طلاق دی ، ہندہ عدت گزار نے لگی ، جب عدت پوری ہوئی تو زید نے بکر کو بلایا اور کہا ہندہ سے آپ نکاح کر لو حلالہ ہو جائے۔ بکر اس بات کے لیے تیا ر ہو ا ، اس کے بعد ہندہ اور زید اور بکر تینوں لوگ جمع ہوئے ، خطبہ پڑھا ، بکر نے زید کو گواہ بناکر ہندہ سے کہا میں نے تجھے اپنے نکاح میں لیا اتنے مہر کے ساتھ ، ہندہ نے قبول کیا اور کہا بکر نے مہر ادا کرنے کے بعد مجامعت کیا ، پھر طلاق دیا ، ہندہ پھر عدت گزارنے لگی ، عدت گزر جانے کے بعد زید نے پھر بکر کو بلایا اور کہا کہ اب میرا نکاح ہندہ سے کرا دیں ، بکر نے کلمہ پڑھا یا اور خطبہ دیا اور ہندہ کا نکاح زید سے نئے مہر کے ساتھ کر دیا ، نکاحِ ثانی میں کوئی گواہ نہیں ، جب کہ نکاح اول میں خود زید گواہ ہے ، عرض کرنا یہ ہے کہ یہ دونو ں نکاح ہوئے کہ نہیں ؟
اگر نہیں ہوئے تو کیا پھر سے نکاح کر کے حلالہ کرنا ہوگا ؟ جیسابھی ہو دونوں نکاح کے تعلق سے جو بھی حکم ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دونوں نکاح فاسد ہوئے ، پہلا تو اس لیے فاسد ہوا کہ وقتِ نکاح دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں جو عاقل بالغ مسلمان ہوں ، ان کا موجود رہنا ضروری۔ اور دوسرا نکاح دووجہوں سے فاسد ہو ا ، پہلی وجہ یہ کہ بغیر گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوا اور دوسری وجہ یہ کہ یہ دوسرا نکاح پہلے نکاح پر موقوف تھا ، اگر پہلا نکاح صحیح ہوا ہوتو یہ بھی صحیح ہو سکتا تھا اگر دو گواہوں کی موجود گی میں ہوا ہوتا ۔ مگر پہلا نکاح ہی درست نہ ہوا اس لیے ہندہ اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہوئی ۔
حدیث شریف میں فرمایا :
من نکح بغیر ولی و شاھدین فنکاحہ باطل ۔ ( جامع مسانید الامام الاعظم ج : 2 ، ص : 24 ، جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور )
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ و یشترط العدد،فلا ینعقد النکاح بشاہد واحد ، ولا یشترط وصف المذکورحتیٰ ینعقد بحضور رجل و امرأتین ‘‘ ملتقطا ( الفتاویٰ الھندیہ ، ج : 1 ، ص : 1267 )
اور فتاویٰ رضویہ میں ہے :
نکاح ایک گواہ سے نہیں ہو سکتا ،جب تک دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں عاقل بالغ مسلمان نہ ہوں ۔ ( فتا ویٰ رضوایہ ، ج : 11، ص : 247 مترجم )
لہٰذا ہندہ اور زید کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہ وہ توبہ و استغفار کریں ۔ اور ان پر واجب ہے کہ فوراًفوراًاپنا نکاح فسخ کریں ، فسخ کا اختیار دونوں میں سے ہر ایک کو ہے ، اور فسخ کرتے وقت دونوں کا موجود رہنا ضروری نہیں؛ بلکہ تنہا بھی فسخ کر سکتے ہیں ، اور فسخ کرنے کے لیے زبان سے کہے کہ میں نے اپنا نکاح فسخ کیا ۔
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے :
و لکل واحد منھما فسخہ و لو بغیر محضر عن صاحبہ دخل بھا أولا ( ج : 3 ، ص: 132 )
اور جس وقت نکاح فسخ کریں اس وقت سے ہندہ عدت شمار کرے ، اور بعد عدت اگر پھر سے ہندہ زیدکے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو کسی دوسرے سے دو گواہوں کی موجود گی میں نکاح کرے ،پھر یہ دوسرا شوہر ہندہ سے ہم بستری کرے، اس کے بعد ہندہ کو طلاق دے ، اب ہندہ پھر سے عدت گزار کر دو گواہوں کی موجودگی میں زید سے نکاح کرے ۔
بکر جس نے بغیر گواہوں کے نکاح کیا اور کرایا، اس نے حرام کام کا ارتکاب۔ کیا حدیث میں ایسوں کو زانی کہا گیا ہے۔
حدیث شریف میں ہے :
الزوانی اللاتی أن ینکحن بأنفسھن بغیر بینۃ ۔ ( السنن الکبریٰ للبیھقی، کتاب النکاح ۔ دار صادر، بیروت ج : 7 ص : 125 )
بکر اس حرام کام کرنے کی وجہ سے فاسق و فاجر مستحق عذابِ نار ہوا ، جس کے سامنے یہ حرام کام کیا ان کے سامنے اس پر توبہ و استغفار کرنا واجب و ضروری ہے ۔ اگر توبہ نہ کرے تو اس کو امام بنانا گناہ و ناجائز ، اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی ناجائز اور اگر پڑھی تو پھیرنی واجب ۔
حدیث میں ہے :
اذا عملت سیئۃ فاحدث عنھا توبۃ، السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ ۔ ( المعجم الکبیر ، مکتبۃ الفیصلۃ ، بیروت ، ج : 20 ، ص : 159 ) واللہ تعالیٰ اعلم
فاروق خان المہائمی المصباحی
۶ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ
۸ ستمبر ۲۰۱۲ء