Feedback submitted successfully!
افطاری اور دعائے خیر

افطاری اور دعائے خیر

    • Writer
    • Tauhid Ahmad Tarablusi
  •  Tauhid Ahmad Tarablusi

رمضان کا مقدس مہینہ ہے، مسلمانوں میں عبادت کا جوش وخروش ہے، ہر فرد اعمال خیر میں پیش پیش ہے۔ 

مسافر روزہ داروں کے لیے محلہ کی مسجد میں انتظام وانصرام کیا جا رہا ہے، اور وہاں گھروں کی تیار کردہ اور خریدی ہوئی چیزیں پہونچائی جا رہی ہیں۔

ایسی صورت میں افطاری کرنے والوں کی بھی کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بنتی ہیں، انہیں چاہیے کہ جن لوگوں نے افطاری کا اہتمام کیا ہے ان کا شکریہ ادا کریں، اور ان کے لیے دست بدعا رہیں، خاص کر بوقتِ افطار انہیں یاد رکھیں،  اس لیے کہ یہ وقت قبولیت کا ہوتا ہے، حدیث شریف میں ہے:

(( للصَّائمِ عندَ فِطرِهِ لدعوةً ما تردُّ )).
"وقت افطار روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی ہے"۔

دوسری حدیث شریف میں ہے:

(ثلاثة لا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ؛
- الإِمَامُ الْعَادِل
- وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ
- وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ.
يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: "وَعِزَّتِي لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ").

"تین افراد کی دعا رد نہیں کی جاتی؛ 
- منصف حکمران
- روزہ دار جب روزہ افطار کرے
- اور مظلوم کی دعا، الله اسے بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس کے  لیے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اور الله -عز وجل- فرماتا ہے: "مجھے اپنی عزت کی قسم، میں تیری ضرور مدد کروں گا، اگرچہ ایک مدت کے بعد"۔

بعد افطار افطاری کرانے والے کے حق میں کون سی دعا کرے؟ اس بابت رسول اکرم -ﷺ- سے کئی دعائیں منقول ہیں، چند یہ ہیں:

• (( أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ )). [سنن أبي داود، 3/ 367،  حدیث نمبر: 3856، وابن ماجه، 1/ 556،  حدیث نمبر: 1747].

امام احمد -رحمه الله تعالی- کی روایت میں ہے:
(( أفطرَ عندَكمُ الصَّائمونَ، وتنزَّلت عليْكمُ الملائِكةُ، وأَكلَ طعامَكمُ الأبرارُ، وغشيتْكمُ الرَّحمةُ )).

• (( اللهُمَّ بَارِكْ لَهُم فيما رَزَقتهْمْ، واغْفِر لهم وارحَمْهُم )). 

• (( اللهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أطْعَمَني، وأَسْقِ مَنْ سْقَاني )).

یکم جون، 2019، ممبیء
 

About

Tauhid Ahmad Tarablusi

Abul Al-Fawad Tawheed Ahmed Tarabalusi Ibn Obaidur Rahman Sahib was born on 9/March 1986 in Akbarpur Siddharth Nagar, he received his primary education and attained graduation/faziilat in Dars e Nizami from Al Jamiat ul Aleemia in his native place Jamda Shahi, U.P, while for post graduation studies he moved to "Kulliyah Al-Da'wah Al-Islamiyah" Tripoli, Libya in 2011, from where he completed Ma'had, kulliyah and tamhiidiyah in 2018 .

  From May 2018 to 2021, he was a teacher at Darul Uloom Ahl-e-Sunnat Habib Al-Rida, Gonda, U.P . Currently, since May 2024, he is serving as a professor at Jamia Ghousia Najm-ul-Uloom, the central institution of Sunni Dawat-e-Islami.

 His great works include editing and arrangement of "Musnad Al-Rabi' bin Sabih al-Basri", "Musnad Imam Kahmas bin Al-Hasan Al-Basri" and "Musnad Aun bin Kahmas Al-Qaisi Al-Basri" in Arabic.

 In Urdu language, his books include "Ghazi" , "Fath-e-Mubeen" , "Bacchon par Shafqat e Rasool", "Gunaahon se ijtinaab quraani nuqta e nigaah se" , "Kya dehn e nubuwwat se nikli har baat wahy e ilaahi hai?" ,  "Arbaeen Tadabbur e  Qur'an", "Arbaeen e Haq Tariq", "Deen aasaan hai", "Ittihaad e ummat aur ahaadeeth e nabawiyya" and "Shaykh Al-Anbiya Hazrat Nuh (peace and blessings of Allah be upon him).

 Apart from these books, about a dozen articles have been published, while more than a hundred unpublished Arabic and Urdu books are awaiting publication.

Tauhid Ahmad Tarablusi

Writer Article Highlight

View All Artcles
نظر کی بے احتیاطی معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہے

نظر کی بے احتیاطی معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہے

  اسلام ایک صالح معاشرہ کا بانی ہے، وہ معاشرے کے ہر فرد کو عزت سے نوازتا ہے، اور انھیں سماج میں اعلی مقام عطا کرتا ہے۔ اس عزت اور مقام کو فقط دولت مندی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی قوانین کی پاسداری لازمی ہے۔ پاکیزہ معاشرہ کے قیام کے لیے اسلام نے کئی قوانین وضع کیے ہیں، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ}. [حجرات: 12]۔ اس آیت کریمہ کے اہم نکات یہ ہیں، ایمان بالله تعالی، بھت زیادہ بدگمانی سے اجتناب، ایک دوسرے کی عدم تجسس، غیبت سے پرہیز اور خوف خدا۔ زیر نظر تحریر نمبر تین سے متعلق ہے، جاسوسی کی کئی قسم ہے، ایک قسم وہ ہے جو حکومتی سطح پر ہوتی ہے، اور مشتبہ فرد کو زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ یوں ہی عالمی پیمانے پر جاسوسی کا نظام پھیلا ہے، ایک ملک دوسرے ملک کے تجسس میں لگا رہتا ہے۔ تجسس کی ایک عوامی قسم بھی ہے، اس میں معاشرے کی اکثریت ملوث ہے، عام طور سے لوگوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا ہے، تجسس کی اس قسم کا نام “نظر کی بے احتیاطی” ہے۔ یہ قسم معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہے، عوامی سطح پر اس گھناؤنے عمل کو اپنایا جا رہا ہے، تسکین نفس کے لیے راہ چلتے گھروں میں نگاہ دوڑائی جا رہی ہے، اور ایک دوسرے کے محرمات پر مطلع ہونے کے لیے مختلف حربے اپنائے جا رہے ہیں۔ یہ اسلامی معاشرتی اصول وضوابط کی کھلی مخالفت ہے، رسول رحمت ﷺ نے اسے سخت ناپسند فرمایا ہے، حدیث شریف میں ہے: “اطلع رجل من جحر في حجر النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومع النبي -صلى الله عليه وسلم- مدرى، يحك به رأسه، فقال: (لو أعلم أنك تنظر لطعنت به في عينك، إنما جعل الاستئذان من أجل البصر)”. [صحيح بخارى]. “ایک شخص نے سوراخ سے رسول الله ﷺ کے حجرہ میں جھانکا، اس وقت آپ کے دست مبارک میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا،  اس سے اپنا سر کھجلا رہے تھے، آپ نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو جھانک رہا ہے، تو ضرور میں تیری آنکھ میں اسے مار دیتا، بے شک اجازت طلب کرنے کا حکم نظر بازی کی وجہ سے ہوا ہے”۔ دوسری حدیث میں ہے: “من اطلع في بيت قوم بغير إذنهم فقد حل لهم أن يفقئوا عينه”. “جو شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالے تو گھر والوں کے لیے اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے”۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر -رضی الله عنہ” فرماتے ہیں: جس شخص نے داخلے کی اجازت سے پہلے گھر کا صحن آنکھ بھر کر دیکھا، اس نے گناہ اور فسق کا کام کیا۔شعب الایمان:۶/۴۴۴) یہ نگاہوں کی عدم حفاظت ہی ہے، جس نے تقوی کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دیں، جنھیں {قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} کا فارمولہ دیا گیا، اور جن کندھوں پر ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کا ذمہ تھا، وہی آمادہ افساد نظر آنے لگے، اور خود اپنی ہی رگوں میں زہریلا مواد داخل کرنے پر بر سر پیکار ہوگیے۔ الله تعالی نے معاشرتی جرائم اور فحاشیوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے حکم دیا تھا: (إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ من سِهَامِ إِبْلِيسَ مَسْمُومٌ، من تَرَكَهَا مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا، يَجِدُ حَلاوَتَهُ في قَلْبِهِ). “بے شک نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑدے، تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا”۔ سرکار اکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابو طالب -رضی الله تعالی عنہ- سے ارشاد فرمایا تھا: (يا علي لا تتبع النظر النظرة، فإن لك الأولى وليست لك الآخرة). [رواه أحمد والترمذي وأبو داود].  “اے علی، پہلی نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ پڑے، اس لیے کہ پہلی معاف ہے، مگر دوسری تمھارے لیے نہیں ہے”۔ صحابہ رسول حضرت جریر -رضی الله تعالی عنہ- کہتے ہیں: “سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: عن نظر الفجأة؟ فأمرني أن أصرف بصري”. “میں نے رسالت مآب -صلی الله تعالی علیہ وسلم- سے اچانک سے پڑ جانے والی نظر کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں نگاہ پھیر لوں”۔ آہ، نفس امارہ کا غلبہ ہر چار سو ہے، محرمات سے نگاہیں سینکیں جا رہی ہیں، احکام الہی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں اتارنے کی سعی متروک ہو رہی ہے۔ اے اسیر نفس، کیا تو نے فرمان خداوندی نہیں سنا:  {وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ}. [اعراف:  176]. “اس نے اپنی خواہش نفس کی اتباع کی، اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے”۔ اے اصلاح معاشرہ کے خواہش مند، اس امر کی ابتداء خود سے کر، رب کریم فرماتا ہے: {إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ}. [الرعد: 11]. “بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،  یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ تبدیل کر لیں”۔ علامہ اقبال کہتے ہیں: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا  

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
تم ایسے خوب صورت ہو کے اتنے بد زبان کیوں ہو

تم ایسے خوب صورت ہو کے اتنے بد زبان کیوں ہو

وجود انسانی خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے، یہ حضرت انسان ہیں، جن کو اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنایا گیا، پھر ان میں سے کچھ افراد کو چنا گیا، انھیں نعمت ایمان سے نوازا گیا، اور امت محمد ﷺ میں سے بنایا گیا۔ غرض کہ کائنات کی ساری اعلی صفات ذات مومن میں ودیعت کر دی گئی، اور بحر وبر میں یہ اعلان بھی کردیا گیا:  {وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ}. [بقره: 221]. “اور تحقیق کہ مومن بندہ مشرک سے زیادہ بہتر ہے”۔ پھر ان مومن بندوں میں درجہ بندی کی گئی، کوئی اعلی درجہ پر فائز ہوا، کوئی متوسط درجے میں پہونچا، کسی کو ادنی درجہ دستیاب ہوا، اور یہ درجات ان کے اعمال صالحہ کے باعث انھیں ملے۔ چناں چہ جس نے حکم الہی کی اتباع کی، وہ دارین میں سر خرو ہوگیا، انھیں احکام الہیہ میں بے ہودہ گوئی سے ابتعاد کا بھی حکم ہے، جو معاشرہ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ جس امت کو {أمة وسطا} کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، جسے امم عالم کی رہبری کی ذمہ داری سونپی گئی، آج وہی سب وشتم کے قعر میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی نے بھت ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے: ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی، تو ہے ہر بات پر گالی تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو! آج عالم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے چند اخص الخواص مواقف کو ہر جگہ بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی احکام {وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}. [آل عمران: 104]، اور (ليس المؤمن بالطعَّان ولا اللعَّان، ولا الفاحش ولا البَذِيء) سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ قرآن کریم نے تو اغیار سے بھی حسن معاشرت کا درس دیا ہے، چناں چہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا، اور یہ کہا گیا کہ اس سے نرم گوئی اختیار کریں، {فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا}. اسی طرح عام مسلمانوں کو بتوں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، تاکہ کفار اپنی جہالت کی وجہ سے خدائے پاک کو گالی نہ دیں، ارشادِ باری ہے: {وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ}. [انعام: 108]. “اور تم لوگ انہیں گالی نہ دو، جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکارتے ہیں، تو یہ لوگ عداوتا الله کو جہالت کے باعث گالی دیں گے”- رسول اعظم ﷺ فرماتے ہیں:(الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ). [صحيح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة]. “آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں”۔ دوسری حدیث میں ہے: (سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ). “مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے”۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے شیطان رجیم کو بھی گالی دینے سے باز رکھا ہے، آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں: (لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره). “تم لوگ شیطان کو گالی نہ دو، تم لوگ اس کے شر سے الله کی پناہ مانگو”۔ امام مناوی -رحمه الله تعالى- اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: “إن السب لا يدفع ضره، ولا يغني من عداوته شيئا؛ ولكن تعوذوا بالله من شره؛ فإنه المالك لأمره، الدافع لكيده عمن شاء من عباده”. [شرح الجامع الصغير]. “بے شک گالی شیطان کے ضرر کو دور نہیں کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی عداوت سے کوئی چیز بچا سکتی ہے، مگر الله تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگو، الله تعالی اس کے معاملہ کا مالک ہے، اس کے مکر کو اپنے جس بندے سے چاہے دفع کرنے والا ہے”۔ ایک دوسری حدیث شریف میں ہے، روز جزاء ایک فرد کو لایا جائے گا، اس کے پاس بھت نیکیاں ہوں گی، مگر اس سے یہ نیکیاں لے لی جائیں گی، اور لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، یہ فرد کوئی اور نہیں بلکہ “گالی باز” ہوگا، الفاظ حدیث یہ ہیں: (إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا. فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ. فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ). “میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ حاضر ہوگا، اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس کے پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا”۔ اے مسلمانو، آخرت کا دن بھت ہی ہول ناک ہوگا، اس روز نفسی نفسی کا عالم ہوگا، ایک ایک نیکی کی بڑی اہمیت ہوگی، اپنی نیکیوں کا ضیاع خود اپنی زبان سے نہ کرو، اچھی بات کرو، جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}. [البقرة:83].  جان لو الله رب العزت بری بات کے اظہار کو سخت  نا پسند کرتا ہے: {لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ}. [نساء: 148]. “الله بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے کلام کو”۔ اے رسول کے دیوانو، اپنے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناؤ، ام المومنین حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- فرماتی ہیں: “لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- فاحشًا، ولا متفحشًا، ولا صخابًا في الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح”. “رسول اکرم ﷺ بد گو، بد زبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، مگر آپ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے تھے”۔ بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ:  (اللهم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق، لا يهدي لأحسنها إلا أنت، وقني سيء الأعمال، وسيء الأخلاق، لا يقي سيئها إلا أنت). [نسائی].  

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
روزہ اور خون کی چانچ

روزہ اور خون کی چانچ

روزہ اور خون کی چانچ الحمد لله الذي أنزل القرآن، والصلاة والسلام على صاحب الفرقان، وعلى آله وأصحابه العرفان. أما بعد، دور جدید میں میڈیکل سائنس نے خوب ترقی کر لی ہے، بیماریوں کی تشخیص کے لیے مختلف طریقے اپنائے جا رہے ہیں،  ان میں سے ایک طریقہ خون کی چانچ بھی ہے۔ شریعت مطہرہ میں خون نکلوانے پر روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، صحابی رسول حضرت ابن عباس -رضی الله تعالی عنه- روایت کرتے ہیں: "أن النبي -صلى الله عليه وسلم- احتجم وهو محرم، واحتجم وهو ‏صائم". "رسول الله -ﷺ- نے حجامت کروائی اور آپ حالت احرام میں تھے، اور آپ نے پچھنا لگوایا اور آپ حالت روزہ میں تھے"۔ چنان چہ صحابہ کرام -رضی الله تعالی علیھم اجمعین- حالت صیام میں حجامت کروایا کرتے تھے، اور اسے مفسد صوم نہیں مانتے تھے، امام زہری -رحمہ الله تعالی- فرماتے ہیں: "كان ابن عمر يحتجم، ‏وهو صائم في رمضان وغيره، ثم تركه لأجل الضعف". "حضرت ابن عمر -رضی الله تعالی عنھما- حجامت کراتے اور وہ رمضان اور غیر رمضان کے روزہ سے ہوتے، پھر آپ نے کمزوری کے سبب سے حجامت کرانا ترک کر دیا"۔ حضرت ام علقمہ فرماتی ہیں: "كنا ‏نحتجم عند عائشة -رضي الله تعالى عنها-، فلا تنهى".‏ "ہم حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- کے پاس [حالت روزہ میں] حجامت کراتی تھیں، وہ منع نہ فرماتیں"۔ حقیقتاً روزہ جسم میں منفذ کے ذریعے کسی چیز کے داخل کرنے پر ٹوٹتا ہے، حضرت ابن عباس اور عکرمہ -رضی الله تعالی عنھم- فرماتے ہیں: "الصوم مما دخل، وليس مما خرج". [صحیح بخاری]. "روزہ داخل ہونے والی چیز سے ٹوٹتا ہے، خروج کرنے والی چیز سے نہیں"۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ حکم اغلب ہے، حکم کل نہیں ہے، بھت سے معاملات ایسے ہیں جن میں خروج کے سبب سے روزہ ٹوٹتا ہے، جیسے ناکح الید ہونا، جان بوجھ کر قیء کرنا وغیرہ۔ المختصر مذہب آئمہ ثلاثہ؛ ابو حنیفہ، مالک، شافعی -رحمھم الله تعالی- میں حجامت سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، اسی پر جانچ کے لیے خون نکلوانے کا بھی قیاس ہے، یہ جانچ ہر مرض کو محیط ہے۔ یکم جون/2019، بروز سنیچر

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
افطاری اور دعائے خیر

افطاری اور دعائے خیر

رمضان کا مقدس مہینہ ہے، مسلمانوں میں عبادت کا جوش وخروش ہے، ہر فرد اعمال خیر میں پیش پیش ہے۔  مسافر روزہ داروں کے لیے محلہ کی مسجد میں انتظام وانصرام کیا جا رہا ہے، اور وہاں گھروں کی تیار کردہ اور خریدی ہوئی چیزیں پہونچائی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت میں افطاری کرنے والوں کی بھی کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بنتی ہیں، انہیں چاہیے کہ جن لوگوں نے افطاری کا اہتمام کیا ہے ان کا شکریہ ادا کریں، اور ان کے لیے دست بدعا رہیں، خاص کر بوقتِ افطار انہیں یاد رکھیں،  اس لیے کہ یہ وقت قبولیت کا ہوتا ہے، حدیث شریف میں ہے: (( للصَّائمِ عندَ فِطرِهِ لدعوةً ما تردُّ )). "وقت افطار روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی ہے"۔ دوسری حدیث شریف میں ہے: (ثلاثة لا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ؛ - الإِمَامُ الْعَادِل - وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ - وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ. يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: "وَعِزَّتِي لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ"). "تین افراد کی دعا رد نہیں کی جاتی؛  - منصف حکمران - روزہ دار جب روزہ افطار کرے - اور مظلوم کی دعا، الله اسے بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس کے  لیے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اور الله -عز وجل- فرماتا ہے: "مجھے اپنی عزت کی قسم، میں تیری ضرور مدد کروں گا، اگرچہ ایک مدت کے بعد"۔ بعد افطار افطاری کرانے والے کے حق میں کون سی دعا کرے؟ اس بابت رسول اکرم -ﷺ- سے کئی دعائیں منقول ہیں، چند یہ ہیں: • (( أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ )). [سنن أبي داود، 3/ 367،  حدیث نمبر: 3856، وابن ماجه، 1/ 556،  حدیث نمبر: 1747]. امام احمد -رحمه الله تعالی- کی روایت میں ہے: (( أفطرَ عندَكمُ الصَّائمونَ، وتنزَّلت عليْكمُ الملائِكةُ، وأَكلَ طعامَكمُ الأبرارُ، وغشيتْكمُ الرَّحمةُ )). • (( اللهُمَّ بَارِكْ لَهُم فيما رَزَقتهْمْ، واغْفِر لهم وارحَمْهُم )).  • (( اللهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أطْعَمَني، وأَسْقِ مَنْ سْقَاني )). یکم جون، 2019، ممبیء  

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء کے روزہ پر ایک نظر

ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء کے روزہ پر ایک نظر

مقدمہ: الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه إلى يوم الدين. أما بعد، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزہ فرض قرار دیا ہے، یہ اسلام کے پانچ بنیادی رکنوں میں سے ایک اہم رکن ہے۔ رمضان المبارک کے علاوہ بھی دیگر ایام میں روزوں کا حکم دیا گیا ہے، مگر ان کا حکم رمضان المبارک کے روزوں کی طرح نہیں ہے، لوگوں کو ان پر ابھارا گیا ہے، اور ان کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، انھیں فرض قرار نہیں دیا گیا ہے۔ فضائل صیام میں چند احادیث صحیحہ جیسا کہ سابق میں گزرا کہ فرض روزوں کے علاوہ دیگر روزوں کی بڑی فضیلت ہے، اس کے ثبوت میں چند احادیث مبارکہ پیش ہیں: (1) عن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه-، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلا بَاعَدَ اللَّهُ، بِذَلِكَ الْيَوْمِ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا». [صحيح مسلم]. حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن الله کی راہ میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس دن کے سبب اس کے چہرہ کو جہنم سے ستر سال کی مسافت پر کر دیتا ہے"۔ (2) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه-، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم-، قَالَ: «مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا، كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَاْلأرْضِ». [سنن ترمذی]. حضرت ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن راہ خدا میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس کے اور جھنم کے درمیان فاصلہ فرما دیتا ہے، جیسے آسمان اور زمین کے درمیان ہے"۔ (3) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه- قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عَدْلَ لَهُ». قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عدْلَ لَهُ». حضرت ابو امامہ باہلی -رضی الله عنہ- سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں عرض گزار ہوا: "اے الله کے رسول، مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیں۔ آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: تم روزہ کو لازم پکڑو، بے شک اس کا کوئی بدیل نہیں"۔ ماہ محرم الحرام کے روزے محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا ماہ ہے، اور حرمت والا بھی ہے، جس کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ}. [التوبة36]. "بے شک الله کے نزدیک مھینوں کی گنتی بارہ ماہ ہے کتاب الله میں، اس روز آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، تو ان ماہ میں خود پر ظلم نہ کرو"۔ متفق علیہ حدیث میں ہے: «إن الزمان قد استدار كهيئتهِ يوم خلق الله السماوات والأرض، السنةُ اثنا عشر شهرًا، منها أربعةُ حُرُم، ثلاثٌ متوالياتٌ: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم، ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان». "بے شک زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر آگیا، جس پر وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن تھا۔ سال بارہ ماہ پر مشتمل ہے، اس میں سے چار ماہ حرمت کے ہیں، تین ذی القعدہ ذی الحجہ اور محرم پے در پے ہیں، اور رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے"۔ اس ماہ کے روزوں کی بڑی ہی فضیلت ہے، حدیث شریف میں ہے: «أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ. وَأَفْضَلُ الصََّلاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صََلاةُ اللَّيْلِ». [صحيح مسلم]. "رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ خدا محرم الحرام کا ہے، اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تھجد ہے"۔ اس حدیثِ مبارکہ میں «شھر» کی اضافت «الله عزوجل» کی جانب تعظیما کی گئی ہے، جس سے اس ماہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کیا ماہ محرم الحرام کے مکمل روزے رکھے جائیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اس ماہ کے کبھی مکمل روزے نہ رکھے، حضرت عبد اللہ بن شقیق فرماتے ہیں:  "قُلْتُ لِعَائِشَةَ - رضي الله عنها: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟ قَالَتْ: مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلا رَمَضَانَ، وََلا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ -صلى الله عليه وسلم-". (صحيح مسلم). "میں نے حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- سے عرض کیا: کیا رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- مکمل ایک ماہ روزے دار ہوتے تھے؟" حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- نے فرمایا: "رمضان کے علاوہ پورے ماہ انھوں نے روزہ نہیں رکھا، اور نہ ہی مکمل مھینہ بغیر روزہ کے گزارا، یہاں تک کہ اس میں سے چند دن روزہ رکھتے، حتی کہ آپ وصال فرما گئے"۔ عاشوراء کا روزہ عاشوراء عاشر سے بنا ہے، جس کا معنی دسویں کے ہے، "عاشوراء کا روزہ" یعنی "دسویں محرم الحرام کا روزہ" کو کہتے ہیں۔ "عاشوراء" کا یہ لفظ الف ممدودہ کے ساتھ ہے، "عاشورہ" پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے، درست نہیں ہے۔ [حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد آر صفحہ 691]۔ یہ روزہ عربوں میں ایام جاہلیت سے متعرف تھا، اہل مکہ اسے رکھتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ -رضی الله تعالیٰ عنھا- فرماتی ہیں: "كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية ، وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصومه في الجاهلية". "جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- بعثت سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے"۔ امام قرطبی -رحمه الله تعالی- لکھتے ہیں:  "لعل قريشاً كانوا يستندون في صومه إلى شرع من مضى كإبراهيم عليه السّلام". "شاید قریش اپنے اس روزہ میں سابقہ شرع پر اعتماد کرتے تھے، جیسے (شریعت) ابرہیم علیہ السلام"۔ مدینہ منورہ میں اہل خیبر اس دن کو بطورِ عید مناتے تھے، اور اسے "عيد الفصح" اور "عيد العبور" کہتے تھے۔ اہل خیبر کی اس عید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابو موسیٰ اشعری -رضی الله عنه- فرماتے ہیں: "كَانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا٬ وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِيهِ حُلِيَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ". "اہل خیبر "یوم عاشوراء" کو روزہ رکھتے تھے، اس دن عید مناتے، ان کی عورتیں اس روز زیور عمدہ لباس پہنتیں"۔ جب آپ -صلی الله علیه وسلم- کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی، آپ نے یہود کو اس طرح خوشیاں مناتے اور روزہ رکھتے پایا تو آپ نے لوگوں سے اس کی اصل دریافت کی، حدیث شریف میں ہے: "قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ». [صحيح بخاری] لوگوں نے کہا: یہ خوشی کا دن ہے، اس دن الله تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی، تو موسی -علیہ السلام- نے اس روز روزہ رکھا۔ رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے فرمایا: میں موسی -علیہ السلام- کا تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ تو آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز کا روزہ رکھا، اور اس دن کے روزہ کا حکم دیا"۔ چنان چہ رسول کریم اور صحابہ کرام اس کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، حضرت ابن عباس -رضی الله تعالی عنھما- فرماتے ہیں: "مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلا هَذَا الْيَوْمَ٬ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ". يَعْنِي: شَهْرَ رَمَضَانَ. (رواه بخاری). "میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کا اہتمام کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یوم عاشوراء کے، اور اس ماہ کے، یعنی ماہ رمضان کے"۔ چوں کہ بعد فرضیت رمضان المبارک رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں باتوں کی اجازت مرحمت فرما دی تھی، اس کے باوجود بعض صحابہ شدت سے اس پر عمل پیرا تھے، خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب -رضی الله تعالیٰ عنہ- نے حارث بن هشام کو لکھا: "ان غدا يوم عاشوراء فصم، وأمر أهلك ان يصوموا". "کل یوم عاشوراء ہے، تو تم روزہ رکھو، اور اپنے اہل خانہ کو حکم دو کہ وہ روزہ رکھیں"۔ اس کے برعکس بعض صحابہ ترک پر بھی عمل پیرا تھے، صحیح بخاری میں ہے: "وَكَانَ عَبْدُ اللهِ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- لَا يَصُومُهُ، إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ". نویں محرم الحرام کا روزہ جب صحابہ کرام نے دسویں کا روزہ رکھا، اور اس میں اہل خیبر سے مشابہت پائی تو وہ بارگاہ نبوت میں عرض گزار ہوئے: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم -: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ». "یا رسول الله، یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔ رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے"۔ حضرت ابن عباس -رضی الله تعالیٰ عنهما- فرماتے ہیں: "فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-". [صحيح مسلم] "آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- وصال فرما گئے"۔ "مسند أحمد" میں ہے کہ آپ -صلّى الله عليه وسلّم- نے فرمایا: «لئن سَلِمْتُ إلى قابلٍ لأصومَنَّ التاسعَ»، يعني: عاشوراءَ. "اگر میں سال آئندہ باحیات رہا تو ضرور نویں محرم کا روزہ رکھوں گا"۔ ایک روایت میں ہے: «لئن عشت إلى قابل لأصومن التاسع». چوں کہ آپ نے نویں کا روزہ نہ رکھا، مگر سال آئندہ کے لیے اس کا عزم فرمایا تھا، لھذا علماء فرماتے ہیں کہ نویں کے دن بھی روزہ رکھا جائے، حَكَم بن اعرج کہتے ہیں: "انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا-، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ. فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ: "إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا". قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَصُومُهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ». اس روز کے روزہ کو "صوم تاسوعاء" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امام نووی -رحمه الله تعالیٰ- تحریر کرتے ہیں: "عاشوراءُ وتاسوعاءُ: اسمانِ ممدودان، هذا هو المشهور في كتب اللغة. قال أصحابنا: عاشوراء هو اليوم العاشر من المحرَّم، وتاسوعاء هو التّاسع منه". [المجموع] "عاشوراء اور تاسوعاء الف ممدودہ سے لکھے جانے والے دو اسم ہیں، کتب لغت میں یہی مشہور ہے۔ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ عاشوراء محرم کا دسواں دن ہے، اور تاسوعاء وہ محرم کا نواں روز ہے"۔ نویں کا روزہ رکھنے میں کئی ایک حکمتیں ہیں، امام نووی -رحمہ الله- لکھتے ہیں: "ذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجهاً:  أحدها: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر. الثاني: أن المراد به وصل يوم عاشوراء بصوم، كما نهى أن يصام يوم الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون. الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خشية نقص الهلال ووقوع غلطٍ، فيكون التّاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر. "ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کرام نے نو محرم کے روزے کے مستحب ہونے کی حکمت میں کئی ایک وجوہات بیان کی ہیں: پہلی: اس سے یھود کی مخالفت مراد ہے،  وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ دوسری: اس سے مقصود ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک روز کا اور روزہ بھی ملایا جائے، جیسا کہ رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے ممانعت فرمایا ہے۔ ان دونوں وجہوں کو خطابی اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے۔ تیسری: دسویں محرم کے روزہ میں احتیاط کے لیے کہ کہیں چاند کم دنوں کا نہ ہو، جس کی بنا پر غلطی ہوجائے اس لیے نو محرم کا روزہ رکھنا عدد میں دس محرم ہوجائے گا۔ اس دور میں یہودیوں کے یہاں قمری کیلینڈر رائج نہیں ہے، اور نہ ہی اس دن روزہ رکھنے کا کوئی اہتمام ہے، اس لیے نو تاریخ کو روزہ رکھنے کی اصل علت مفقود ہوگئی ہے، دس محرم کو روزہ رکھنا بھی کافی ہے۔ فضیلت صوم عاشوراء احادیث کی روشنی میں رمضان کی فرضیت سے قبل اسے واجب قرار دیا گیا تھا، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا، اس روزہ کی فضیلت احادیث متواترہ سے ثابت ہے، چند ملاحظہ فرمائیں: (1) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الكَعْبَةُ. فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ». (2) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ -رضي الله عنه-، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ». [صحيح مسلم]. حضرت ابو قتادہ -رضی الله عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: "مجھے الله پر یقین ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا"۔ (3) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ رَجُلا ، سَأَلَهُ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ فَقَال: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا إِلا رَجُلا سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-٬ وَأَنَا حَاضِرٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَصُمِ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّ شَهْرَ اللَّهِ -عَزَّ وَجَلَّ- فِيهِ يَوْمَ تَابَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ». حضرت علی -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنا حکم دیتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس سوال کو نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- سے ایک شخص کو پوچھتے ہوئے سنا، اور میں آپ کے پاس موجود تھا، تو اس شخص نے کہا: یا رسول الله، آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے جواب دیا: اگر تم ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم کا روزہ رکھو؛ بے شک وہ ماہ خدا ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی، اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس روز قبول فرمائے گا"۔ (4) عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الأَنْصَارِ: «مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا، فَليَصُمْ». قَالَتْ: "فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ العِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الإِفْطَارِ". ربیع بنت معوذ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشورہ کی صبح انصار کی بستیوں میں اطلاع بھجوائی کہ جس نے کھا پیا لیا ہے اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دن نہ کھائے پیے، اور جو روزہ دار ہیں تو انھیں چاہیے کہ روزہ دار ہی رہیں"۔ ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: "اس کے بعد ہمارا یہ معمول تھا کہ ہم اس روز کا روزہ رکھتے تھے، اور ہم اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے، اور ان کے لیے اون سے کھلونا بنا دیتے، جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا اسے کھانا کھلا دیتے، حتی کہ وہ افطار میں بھی ساتھ ہوتا تھا۔ (5) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ «إِنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ أَوْ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ فَلاَ يَأْكُلْ». (6) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "صَامَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ". [صحیح بخاری] حضرت ابن عمر -رضی الله عنھما- سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: "رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشوراء کا روزہ رکھا، اور اس روزہ کا حکم فرمایا، جب رمضان فرض کیا گیا اسے ترک کر دیا گیا"۔ فوائد صوم عاشوراء (1) اس روزہ کی برکت سے سال بھر کے گناہ صغیرہ مٹا دیئے جاتے ہیں٬ حدیث شریف میں ہے: "وسُئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: «يُكفِّر السنة الماضية». "اور یوم عاشوراء کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: وہ سال گزشتہ کے گناہ کا کفارہ ہے"۔ امام مسلم -رحمہ الله- کی روایت میں ہے: "وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ". (2) امام أحمد اپنی "مسند" میں روایت کرتے ہیں: "وهو اليوم الذي استوت فيه السفينة على الجودي، فصامه نوح شكرا". "اسی روز کشتی جودی پر ٹھری، تو اس روز حضرت نوح -علیہ السلام- نے شکرانہ کا روزہ رکھا"۔ اس بات کا ذکر صرف امام احمد کی روایت میں ہی ہے، الحافظ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں: "وكأن ذكر موسى دون غيره هنا لمشاركته لنوح في النجاة، وغرق أعدائهما". (3) بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے، اس روز حضرت موسیٰ -علیہ السلام- اپنی قوم کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئے، اور شکرانے میں اس روز روزہ رکھا، حدیث شریف میں ہے: "هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى". (4) حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتی ہیں: "كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوما تُستَر فيه الكعبة. [صحیح بخاری] لوگوں رمضان کے فرض ہونے سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور وہ ایسا دن تھا کہ اس روز کعبہ پر خلاف چڑھایا جاتا"۔ (5) ازرقی کا کہنا ہے کہ: "أن معاوية كساها الديباج والقباطي والحبرات. فكانت تكسى الديباج يوم عاشوراء، والقباطي في آخر رمضان. (6) اسی روز امام حسین -رضی الله تعالیٰ عنه- کربلا میں شہید ہوئے۔ خاتمہ الله تعالی کا شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں بھت سے یادگاری ایام عطا فرمائے، یہ ایام اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سے خوب خوب استفادہ کیا جائے، انھیں  ذکر وفکر میں گزارا جائے، اور حاصل شدہ نصح وعبر سے سبھی کو مطلع کیا جائے، تاکہ مستقبل کی سھی طور پر پیش بندی کی جا سکے، اور امت مسلمہ فلاح دارین حاصل کرسکے۔ علاوہ ازیں ان دنوں میں ثابت شدہ امور کو ہی بجا لانا چاہیے، بدعات ومنکرات سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، الله تعالی فرماتا ہے: {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ}. ممبیء، 15/اگست/2019

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
اسلوبِ دعوت اورداعی کانصاب

اسلوبِ دعوت اورداعی کانصاب

اسلوبِ دعوت اورداعی کانصاب ازقلم : طاہرحمید کسی بھی چیزکی موثریت میں لوگوں کے سامنے اس کی پیشگی کا اسلوب بڑافعال کردار ادا کرتا ہے۔ دعوت ایک نظام ہے اور خیر وشر کی ساری عمارتیں اس کے سہارے کھڑی ہیں۔ خیر کی دعوت کا اسلوب موثر اور کارگر ہوجائے تو تمدن کی اقدار پر صالحیت غالب آجاتی ہے اور اگر شر اپنے اسلوب کو مزین کرکے پیش کردے اور تاریکی کے پردوں میں مصنوعی، فانی اور باطل روشنیوں کا شہر آباد کرلے تو کلچر پر اس کا غلبہ ہوجائے گا۔ سورہ احزاب کی آیہ کریمہ میں قرآن مجید نے اسلوب دعوت کے تین ضروری عناصر کا ذکر کیا ہے اور آیت کے اختتام پر سراجاً منیرا کے الفاظ لائے گئے ہیں جن کا ایک مفہوم یہ بھی بنتا ہے کہ تقاضاہائے دعوت کو پورا کرنے اور اسلوب دعوت کے تشکیلی عناصر پر ہمہ پہلو عمل معاشرے کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی ثقافتی اقدارِ حیات پر وہ اثرات مرتب کرے گا جن سے کفر، شیطنت، طاغوتیت اور باطل کی تاریکیوں کے سب پردے چاک ہوجائیں گے، ہر طرف حق کی برکھا نور بن کر برسے گی اور پورا عالم بقعہ نور بن جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یا ایہا النبی اناارسلنک شاہدا ومبشراً ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجاً منیرا۔ (الاحزاب، ۳۳، ۴۵،۴۶) ترجمہ: اے (محبوب) نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈر سنانے والا اور اللہ کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا اور چمکنے والا سورج بناکر بھیجا ہے۔‘‘ لہٰذا اس آیت کریمہ کی روشنی میں عظیم داعی کے دعوتی منہاج کے تشکیلی عناصر تین ہیں۔ ۱۔ شاہدیت   ۲۔مبشریت   ۳۔ نذیریت شاہدیت کا تقاضا ہے کہ داعی اپنی دعوت پر گواہ ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے سراپا کے ظاہر وباطن سے اس کی دعوت جھلکے۔ وہ اپنی دعوت کو محض زبان سے اس طرح پیش نہ کرے کہ اس کا عمل خود اس قول کا رفیق نہ ہوپائے۔ یہ موثر دعوت کے اسلوب تقدیم کے سراسر خلاف ہے۔ موثر نظام دعوت کا اسلوب پیشگی اس بات کا بڑی شدت سے متقاضی ہے کہ داعی اپنی دعوت پر گواہ ہو۔ اس کے قول وعمل ، احوال واطوار، قیام وجلوس اور خوردونوش کے اعمال سے لے کر اس کی ہرحرکت  جب تک اس کی دعوت کا مظہر نہیں بنتی وہ اپنی دعوت پر گواہ نہیں ہوسکتا اور دعوت اس وقت تک دعوت نہیں بنتی، جب تک اس پر شہادت نہ ہو۔ اسلوب دعوت میں مبشریت کے عنصر کا تقاضا ہے کہ داعی دعوت کو پیش کرتے وقت رحمت کے پہلو غالب رکھے۔ یاس وقنوطیت میں دبے لوگوں کو امید وآس کی حقیقتوں سے آشنا کردے۔ اپنے رب کی رحمتوں کا تذکرہ یوں کرے کہ گھپ اندھیروں میں کھڑی انسانیت وہیں کھڑے کھڑے فضل الٰہی کی روشنیوں کے میناروں کا مشاہدہ کرلے۔ اسلوب دعوت میں شان نذیریت یہ چاہتی ہے کہ باطل حق کی گرج سے لرزہ براندام ہوجائے اکھڑ، اجڈ اور گنوار جہالت کی کیسی ہی دبیز تہوں میں دبے ہوئے کیوں نہ ہوں اسلوب دعوت کا تقاضائے نذیریت ان کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ اس کی موثریت پر زد نہ پڑنے دی جائے یعنی اس کو مناسب حال ومقام کے ساتھ ساتھ مناسب وقت پر استعمال کیا جائے۔ یہی عنصر داعی سے تقاضا کرتا ہے کہ ظالم جابر حکمران کے سامنے وہ بلا جھجک کلمہ حق کہہ کر عظیم جہاد کرے اس طرح کہ فرعونی محلات میں بھی اللہ کے ڈر کی صدا لگانے سے اسے کوئی باز نہ رکھ سکے۔ اسلوب دعوت کے یہ عناصر بروئے کار لاکر ہی نبوی ومصطفوی دعوت کے نظام کو معاشرے میں جاری وساری کیا جاسکتا ہے اور اس کی اثر اندازی کی پیمائش اس روشنی سے کی جائے گی جو اس نظام کے داعیوں کے قول وعمل اور فکر ونظر سے شعاعوں کی صورت میں نکل کر معاشرے میں پھیل رہی ہوگی جس کا نظام دعوت اور اس کی حکمت سراجاً منیراصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جتنی زیادہ قریب ہوگی وہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے اتنا موثر ہوگا۔ موثر دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں اور داعی بھی کردار کے ان تقاضوں سے بہرہ ور ہو جو اس کی دعوت کو موثر بناتے ہیں۔ داعی کے کردار کے حوالے سے مکی دور کی ابتدائی سورتیں ، سورۂ مزمل اور سورہ ٔمدثر اپنے اندر ایک پورا نصاب رکھتی ہیں کہ داعی کے اوصاف کیا ہونے چاہیے ان کی ذات وکردار میں کیا محاسن ہونے چاہیے۔ یہاںسورئہ مزمل کی چندآیات پرگفتگوکی جاتی ہے۔ ان لک فی النھارسبحاً طویلاً ترجمہ: بے شک دن میں توتم کوبہت سے کام ہیں یہاں اموردنیاکے انتظام وانصرام کاتذکرہ فرمایاکہ داعی کی  زندگی معمولات زندگی سے خالی یاترک پرمشتمل نہیںہوتی بلکہ وہ اپنی تمام ترذمے داریوں اورحقوق العبادکی ادائیگی سے بھی غافل نہیںہوتابلکہ دنیاوی ذمے داریوں کی ادائیگی کامناسب واحسن انتظام وانصرام بھی داعی کے کردارکاایک اہم جزوہے ۔ واذکراسم ربک ترجمہ:اوراپنے رب کانام یادکرو ذکرِکثیرداعی کے لیے ایک اسلحے اورہتھیارکی حیثیت رکھتاہے کہ یہ جہاںایک طرف داعی کے اندراس کی دعوت کارنگ پیداکرتاہے وہاں دوسری طرف رب ذوالجلال کے ساتھ اسے متعلق رکھتاہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوجب فرعون کے پاس دعوت حق دے کربھیجاگیاتوارشادفرمایاولاتنیافی ذکری یعنی اے موسیٰ میرے ذکرمیںسستی نہ کرناکیونکہ ذکرکثیردراصل مذکورسے وابستہ ہونے اورداعی کے تعلق کوزندہ وتازہ رکھنے کاذریعہ ہے جوذکرربانی کرتے کرتے ذکرحال تک پہنچ جاتاہے۔ رب المشرق والمغرب لاالہ الاھوفاتخذہ وکیلا ترجمہ:وہ مشرق ومغرب کارب ہے اس کے سواکوئی معبودنہیںتوتم اسی کواپناکارسازبنائو۔ دعوت کاکام کرنے والوںکے لیے توکل اورتفویض بہت بڑی نعمت ہے۔ اگرداعی میں توکل ہوگاتووہ کبھی بھی نفسیاتی امراض کاشکارنہ ہوگااوراس کاحال یہ ہوگاکہ  یاایھاالنفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ یعنی اے اطمینان کرنے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ جااس طرح کہ تواس سے راضی اوروہ تجھ سے راضی ۔ یہ اطمینان اوررضائے الٰہی کی کیفیتِ توکل، داعی کوحاصل ہوگی۔ واصبرعلیٰ مایقولونترجمہ:اور(کافروںکی )باتوں پرصبرکرو راہِ حق کی مشکلات پرصبرکرناداعی کاشیوہ ہے کہ داعیِ حق کی راہ میں لوگ رکاوٹیںکھڑی کریں گے ،طعنے گالیاں اورزیادتیاں ا س کے راستے میں آئیں گی ۔انبیاکے ساتھ بھی یہی ہوامگراس سب کے باوجودداعی کوچاہیے کہ وہ اپناکام ترک نہ کرے اورنہ ہی صبرکادامن اپنے ہاتھ سے چھوڑے ۔اقامت دین کاکام کرنے والے گالی اورغصے کاجواب گالی اورطعنے سے نہ دیں ۔مخالفین کاکام گالیاںدینااورطعنے واذیتیں دیناہے مگرداعی کاکام خوش خلقی اورخیرخواہی ہے کہ وہ مشکلات کے پہاڑہی کیوںنہ ہوںمگرانہیںوہ خندہ پیشانی سے سامناکرے اورصبرواستقامت کے ساتھ دعوت کاکام آگے بڑھائے جائے ۔ اسی طرح سورئہ مزمل کی ایک اورآیت کریمہ واھجرھم ھجراً جمیلاً(۷۳:۱۰) جہاں مخالفین رکاوٹ بنیں توداعی کوہجرِجمیل کاراستہ اپناناہوگاکہ شرافت اوروـضع داری سے ان سے علیحدگی اختیارکرلے۔الجھنے سے توانائیاں اورصلاحیتیں بربادہوں گی ۔یہی تعلیم ہمیں سیرتِ نبوی سے ملتی ہے کہ لوگوںنے آپ پر ظلم کیا،جنگیں ہوئیں،مصائب وآلام آئے، آپ نے اپناوطن چھوڑامگرآپ نے مخالفین کے لیے بددعاتک نہیںکی کہ داعی کی شان یہ ہے کہ وہ دعوت دین کے کام کے اندرانتقام اوربے صبری پرنہ آئے ۔داعی کازیورصبراورہجرِجمیل ہے کہ اس کی برکت یہ ہے کہ داعی دینِ حق کاسپاہی ہے اس لیے داعی پرحملہ دین پرحملہ ہے ۔ دین حق کے داعیوںکودفاع ضرورکرناچاہیے کہ آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی غزوات ہوتے رہے مگرانتقام میںحدسے نہ بڑھے کہ مخالفین حق سے دنیاوآخرت میںانتقام اللہ لے گا۔دین کاکام اوردعوتِ حق کاکام کردارطلب کام ہے جب تک داعی مطلوبہ کرداراورصفات سے متصف نہ ہوگااس کی تمام ترمحنت نتیجہ خیزنہ ہوگی۔ دعوتِ دین کاکام کرنے والے اپنی طبیعتوں سے کچاپن ختم کریں۔کھری اورسچی باتیںکرناہی اہل حق کاشیوہ ہے۔داعی جب تک حق پرقائم نہیںہوتااس کی زندگی نتیجہ خیزی سے خالی ہوتی ہے ۔یہ نتیجہ خیزی ثقاہت، صداقتِ قول اورحضورِقلب سے آئے گی اور حضورِقلب کاذریعہ قیامِ لیل ہے۔  

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
طلبِ شفاعت کے متعلق ایک اہم فتویٰ

طلبِ شفاعت کے متعلق ایک اہم فتویٰ

طلبِ شفاعت کے متعلق ایک اہم فتویٰ فتویٰ:  ڈاکٹر علی جمعہ محمد مفتی اعظم مصر ترجمہ، تحقیق، تخریج: فہیم احمد ثقلینی ازہری سوال: آیت کریمہ ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا اللہ واستغفرلہم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیماً‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو بخشش ومغفرت کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضری دیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ حکم آپ کی حیات ظاہری تک ہی محدود تھا یا پھر تاقیامت اس کا حکم باقی ہے۔ بینوا توجروا۔ بسم اللہ الرحمن الرحمن، نحمدہ ونصلی علیٰ حبیبہ الکریم الجواب:مذکور فی السوال آیت کریمہ مطلق ہے۔ اس میں کسی طرح کی نصی یا عقلی قید نہیں ہے کہ یہ حکم صرف حیات مبارکہ تک ہی خاص ہو۔ اس آیت کریمہ میں رب تعالیٰ نے مومنین کو جو حکم دیا ہے یہ حکم تاقیامت باقی وساری اور جاری وثابت ہے۔ اس آیت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسے آپ کی حیات دنیویہ تک محدود رکھے۔ اس آیت شریفہ کا ترجمہ یہ ہے ’’اور وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں توآپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔‘‘ یہ قاعدہ معروف ومسلم ہے کہ ’’العبرۃ لعموم اللفظ لا بخصوص السبب‘‘عموم لفظ کااعتبار ہوتا ہے خصوصیت سبب کا اعتبار نہیں اور جو یہ دعویٰ کرے کہ یہ حکم آپ کی حیات مبارکہ تک خاص تھا۔ ’’فعلیہ یأتی بالدلیل‘‘ تو اس شخص پر اپنے دعویٰ کی تائید میں دلیل لانا ضروری ہے اور قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ’’ان المطلق یجری علی اطلاقہ‘‘ کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اور مطلق کسی دلیل کا محتاج نہیںہوتا ہے کہ وہ اصل ہے اور مقید وہ ہے جسے دلیل کی احتیاج ہو یہ مفسرین کرام کا راجح مذہب ہے۔ اکثر مفسرین کرام نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل واقعہ کو بطور دلیل پیش کیا ہے مثلاً امام ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کریمہ کے بعد اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔’’علما کی ایک جماعت نے اس واقعے کو اپنی اپنی مصنفات ومؤلفات میں بطور دلیل تحریر کیا ہے علما کی اس جماعت میں شیخ ابوالنصر الصباغ نے اپنی کتاب ’’الشامل‘‘ میں حضرت عتبی سے یہ واقعہ روایت کیا ہے کہ امام محمد بن عبداللہ عتبی نے کہا میں مسجد نبوی میں روضۂ اقدس کے قریب بیٹھا ہوا تھا ایک اعرابی حاضر ہوا اور روضۂ اقدس کی معطر خاک شریف اپنے سر پر ڈالتے ہوئے عرض کی ،بڑے اچھے انداز میں سلام عرض کیا اور بڑی حسین دعا مانگی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی جس میں تمام اولین وآخرین کا علم جمع ہے اور اپنی کتاب میں فرمایا اور اس کا ارشاد برحق ہے ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم الخ‘‘ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی شفاعت طلب کرتے ہوئے آپ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہوا ہوں ۔یہی وہ دربار ہے جہاں کی حاضری پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے پھر روضۂ اقدس کی طرف متوجہ ہوکر درج ذیل اشعار پڑھنے لگا: (۱)……یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ        فطاب من طیبہن القاع والاکم (۲)……انت النبی الذی ترجیٰ شفاعتہ        عند الصراط اذا مازلت القدم (۳)……نفسی الفداء لقبرٍ انت ساکنہ        فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم ترجمہ:(۱) اے زمین میں دفن ہونے والوں میں سب سے افضل واعلیٰ شخصیت، آپ کی خوشبو سے میدان اور فضائیں معطر ہیں۔ (۲) جب پل صراط پر پاؤ ڈگمگائیں گے تو آپ ہی وہ معظم نبی ہیں جن کی شفاعت کی امید لگائی جاتی ہے۔ (۳) میری جان اس روضۂ اقدس پر فدا ہو جہاں آپ محوِ آرام ہیں اس میں پاکیزگی اور اسی میں سراپا جودوکرم ہے۔ پھر وہ اعرابی اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر چلاگیا۔میں (عتبی) کسی شک وشبہے کے بغیر کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہاتو وہ مغفرت حاصل کرکے چلاگیا اور اس سے زیادہ فصیح وبلیغ کوئی درخواست نہیں سنی گئی۔ اس کے بعد امام محمد بن عبداللہ عتبی کا اپنا عینی مشاہدہ اور اضافی بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے نیند آگئی تو مجھے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’یاعتبی اِلحق الاعرابی فبشرہ ان اللہ غفرلہ‘‘ اے عتبی جلدی سے اس اعرابی سے ملو اور اسے یہ خوشخبری دے دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔ اس واقعے میں خواب سے استدلال کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ بتانامقصود ہے کہ امام ابن کثیر نے اس کو آیت کی تفسیر میں بطور دلیل پیش کیا ہے اور کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا ہے یہ قابل غور ہے۔ ثانیاً اس اعرابی کا یہ اعتقاد تھا کہ بعد وصال بھی اس آیت کریمہ کا حکم باقی ہے۔ ثالثاً یہ کہ امام عتبی نے اعرابی کو اس فعل سے منع نہیں کیا کہ بعد وصال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر گناہوں کی مغفرت طلب کرنا منع ہے۔ اکثر فقہائے کرام نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کے استحباب پر استدلال کیا ہے کہ روضۂ اقدس کی زیارت مستحب ہے اور اس وقت اس آیت کریمہ کی تلاوت کرنا چاہیے۔ اس آیت کریمہ کے تعلق سے مذاہب اربعہ ملاحظہ فرمائیں۔ مذہب حنفی: زیر بحث آیت کریمہ کے متعلق ائمہ احناف کا مذہب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کا حکم تاقیامت باقی وثابت ہے اورروضۂ اقدس کی زیارت کے دوران اس آیت کریمہ کا پڑھنا مستحب ہے۔ روضۂ اقدس کی زیارت کے آداب کے متعلق ائمہ احناف فرماتے ہیں ’’ثم یقف عند رأسہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الاول ویقول اللہم انک قلت وقولک الحق۔ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاء وک ‘‘ مواجہہ شریف کے سامنے کھڑے ہوکر عرض کرے یا اللہ !تیرا ارشاد حق ہے کہ اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت کریں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیںگے۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، لجنۃ برئاسۃ نظام الدین بلخی ج۱، ص۲۶۶، مطبوعہ دارالفکر بیروت) مذہب مالکی: زیر بحث مسئلہ میں ائمہ مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ جیسا کہ امام ابن الحاج العبدری المالکی لکھتے ہیں کہ روضۂ اقدس پر حاضری دے تو آپ کو خدا کی بارگاہ میں واسطہ ووسیلہ بنائے ۔وہ گناہوں اور خطاؤں کو معاف کرانے کی جگہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کی برکت اور عظمت کے سامنے ہمارے گناہوں اور خطاؤں کی کوئی اوقات نہیں ہے تو اس شخص کے لیے بشارت ہے جس نے آپ کے روضۂ اقدس کی زیارت کی اور خدا کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کو وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کرے یا الٰہ العالمین مجھے اپنے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم نہ فرما اور جس شخص نے اس کے برخلاف اعتقاد کیا تو وہ محروم الفیض اور شفاعت سے نا امید ہے۔ کیا اس کم نصیب اور ناعاقبت اندیش نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک… الخ‘‘ تو جو شخص روضۂ اقدس پر حاضری دیتے وقت آپ کو وسیلہ بنائے گا تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلاموں سے یہ وعدہ فرمایا ہے جو میرے حبیب کی بارگاہ میں توبہ کے لیے حاضری دے گا تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا۔ کسی بھی صحیح العقیدہ مومن کو اس میں شک کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب سے بغض وعناد رکھنے والے کے لیے اور منکردین کے لیے شک کی جگہ ہے۔ نعوذ باللہ من الحرمان۔ (المدخل للامام ابن الحاج العبدری المالکی ج۱؍ص۲۶۰، مطبوعہ دارالتراث بیروت) مذہب شافعی : ائمہ شوافع میں معروف ومشہور حضرت امام نووی شارح صحیح مسلم اس سلسلے میں روضۂ اقدس کی زیارت کے آداب میں رقم طراز ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مواجہہ شریف کے سامنے حاضر ہو اور آپ کی ذات مبارکہ کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنائے اور خدا کی بارگاہ میں شفاعت کا طلب گار ہو اور دوران حاضر ی سب سے بہتر قول وہ ہے جس کو امام ماوردی اور قاضی ابو الطیب کے علاوہ ہمارے تمام اصحاب شوافع نے امام عتبی سے اعرابی والا واقعہ نقل کیا (جو ابھی ماسبق میں گزرا) المجموع للامام النووی ج۸؍ ص:۲۵۶ مطبوعہ مطبعۃ المنیریہ بمصر) مذہب حنبلی:ائمہ حنابلہ میں مشہور ومعروف امام شیخ ابن قدامہ حنبلی مقدسی فرماتے ہیں کہ مواجہہ شریف کے سامنے قبلہ کی جانب بیٹھ کر کے کھڑا ہو اوردست بستہ باادب عرض کرے ’’السلام علیک یا ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علیک یا نبی اللہ اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے سارے احکام ہم تک پہنچائے اور امت کی خیر خواہی کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا اور لوگوں کو حکمت وموعظت کے ذریعہ رب کی طرف بلایا آپ پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیںاور برکتیں نازل ہوں ۔اس کے بعد درود ابراہیمی پڑھے پھر یہ آیت کریمہ تلاوت کرے ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک‘‘ یا الٰہ العالمین تیرا فرمان حق ہے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گناہوں کی مغفرت کے لیے حاضر ہوں اور شفاعت کا طلبگار ہوں۔ یا اللہ! میری مغفر ت فرما۔ پھر اس کے بعد ماں باپ عزیزو اقارب دوست واحباب اور جملہ مسلمین ومومنین کے لیے دعائے خیر کرے۔ (المغنی، للامام عبداللہ بن احمد بن قدامۃ الحنبلی المقدسی،۳؍ ۲۹۸، داراحیا التراث العربی بالقاہرہ بمصر) اس کے علاوہ امام مصطفی بن سعد بن عبدہ الرحیبانی حنبلی فرماتے ہیں کہ روضۂ اقدس کی زیارت کے دوران اس آیت شریفہ کا ورد کرنا مستحب ہے اس کے علاوہ دوران زیارت یوں عرض کرے۔ (امام ابن قدامہ حنبلی کی مذکورہ بالا روایت) ’’مطالب اولیٰ النہی للامام مصطفی بن عبدہ الرحیبانی، ۲؍۴۴۱، مطبوعہ المکتب الاسلامی بالقاہرہ مصر‘‘) خلاصہ: مذکورہ بالا ائمہ کرام ،علمائے عظام کے اقوال سے یہ امر روزِ روشن کی طرح آشکاراہوگیا کہ روضۂ اقدس کی زیارت کے دوران اس آیت کریمہ کا پڑھنا مستحب ہے اورائمہ کرام کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت کریمہ تا قیامت باقی وثابت ہے۔ امت محمدیہ کے علما وائمہ کا سلفاً وخلفاً یہی مذہب ہے۔ اس کا انکار کم عقل، یتیم العلم اور محروم الفیض ہی کرسکتا ہے ۔بعد از وصال ظاہری حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا استغفار عقلاً، نقلاً یا شرعاً ممتنع نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’حیاتی خیر لکم تحدثون وتحدث لکم ووفاتی خیر لکم تعرض علی اعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللہ ومارأیت من شر استغفرت اللہ لکم‘‘ اے میرے غلامو! میری حیات تمہارے لیے باعث خیر ہے کہ تم پر احکام شریعت بیان کیے جاتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لیے باعث خیر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوں پس خیر کو دیکھنے پر اللہ کی تعریف کروں گاا ور شر کو دیکھنے پر تمہارے لیے اللہ سے استغفار کروں گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ (فتاویٰ کاترجمہ مکمل ہوااس پرحاشیہ ہدیہ قارئین ہے)  واقعۂ عتبی کی تحقیق: حضرت امام محمد بن عبداللہ عتبی کی جانب منسوب واقعہ اصولی اور فنی اعتبار سے صحیح ہے اور قابل اعتبار واستناد ہے اور ہر عصر وزمانے میں ثقہ رواۃ نے اسے اپنی اپنی مؤلفات میں تخریج کیا ہے۔ چند ائمہ اعلام اور معتبر کتب کے حوالے ہدیۂ قارئین ہیں: امام بیہقی نے شعب الایمان ۳؍ ۴۹۵، ۷؍۷۱۸ میں، امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر ۲؍۳۰۶ میں، امام قرطبی نے اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن ۵؍۲۶۵ میں، امام نسفی نے اپنی تفسیر مدارک التنزیل ۱؍۲۳۴ میں، امام ابن بشکوال نے ’’القربۃ الی رب العالمین بالصلاۃ علیٰ سید المرسلین ص۱۶‘‘ میں امام نووی نے ’’ایضاح‘‘ ص۴۵۴، میں اور البحر المحیط ۳؍ ۶۹۴ میں تخریج کیا ہے۔ تخریج الحدیث: امام قاضی عیاض مالکی اندلسی نے ’’کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱؍۱۹‘‘ میں، امام بزار نے اپنی مسند ’’کشف الاستار ۱؍۳۷۹‘‘ میں، امام ہیتمی نے ’’مجمع الزوائد ۹؍۲۴‘‘ میں، امام حارث نے اپنی مسند ۲؍۸۸۴میں، امام ابن کثیر نے ’’البدایۃ والنہایۃ ۵؍۲۷۵‘‘ میں، اس کی تخریج کی ہے۔ امام دیلمی نے ’’مسند الفردوس بما ثور الخطاب ۱؍۱۸۳‘‘ رقم الحدیث ۶۸۶ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔امام عبداللہ بن عدی نے ’’الکامل فی معرفۃ ضعفاء المحدثین ۳؍۷۶، رقم الحدیث ۹۵۳‘‘ میں، امام عجلونی نے ’’کشف الخفا ومزیل الالباس ۱؍۴۴۲‘‘ میں امام ویلمی نے ’’مسند الفردوس بما ثور الخطاب ۲؍۱۳۷، رقم ۱۱۷۸‘‘ میں حضرت انس بن مالک سے مختلف الفاظ کی تغییر کے ساتھ روایت کی ہے۔ بکر بن عبداللہ مزنی سے درج ذیل محدثین نے اس روایت کو ’’مرسلاً‘‘ رویات کیا ہے۔ امام ہیتمی نے ’’مجمع الزوائد ۲؍ ۸۸۴‘‘ میں، امام ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری ۲؍۱۹۴‘‘ میں، امام عجلونی نے ’’کشف الخفا ومزیل الالباس ۱؍۴۴۲، رقم ۱۱۷۸، میں اس روایت کی تخریج کی ہے۔ انتہیٰ۔ امام ابوبکر ہیتمی نے مجمع الزوائد میں تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ اس حدیث کی سند کے جملہ رجال صحیح ہیں اور امام ابو زرعہ عراقی نے ’’طرح التثریب ۳؍۲۹۷‘‘ میں کہا ’’اسنادہ جید‘‘ اس حدیث کی سند جید ہے اور امام مناوی نے ’’فیض القدیر ۳؍۴۰۱‘‘ میں اس حدیث کی تصحیح کی ہے اور کہا تعجب ہے اس شخص پر جس نے یہ گمان کیا کہ یہ حدیث ’’حدیث مرسل‘‘ ہے۔ ان کے علاوہ علما ومحدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے۔ ان محدثین میں امام نووی، امام ابن التن، امام قرطبی، قاضی عیاض اورحافظ ابن حجر عسقلانی ہیں۔ انتہیٰ۔ حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کا وہ مکالمہ جو خلیفۂ وقت ابوجعفر منصور سے مسجدنبوی میں ہواتھا وہ بھی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ زیر بحث آیت کریمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات دنیویہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ اس کا حکم تاقیامت باقی ہے اور حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور مذہب بھی یہی ہے ۔اس واقعے کو حضرت امام علامہ فقیہ محدث ابوعبداللہ محمد بن موسیٰ بن نعمان مزالی مراقشی نے اپنی کتاب ’’مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام علیہ الصلاۃ والسلام فی الیقظۃ والمنام‘‘ صفحہ ۲۵ پر تحریر کیا ہے۔ خلیفۂ وقت ابوجعفر منصور نے امام دارالہجرۃ حضرت انس بن مالک سے مسجد نبوی میں مناظرہ کیا تو امام مالک نے خلیفہ سے کہا اے خلیفۂ وقت! آپ مسجد میں بآواز بلند گفتگو نہ کریں اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کرام کوادب سکھاتے ہوئے فرمایا ’’یا ایہا الذین آمنوا لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجہروا لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون‘‘( سورۃ الحجرات آیت۲) ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ ان کے سامنے بلند آواز سے بولو جیسے ایک دوسرے سے بلند آواز سے بات کرتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی ایک جماعت کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ان الذین یغضون اصواتہم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقویٰ لہم مغفرۃ واجر عظیم‘‘( سورہ الحجرات آیت۳) ترجمہ: بے شک جولوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے ان ہی کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے اور کچھ لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرہم لایعقلون‘‘( سورۃ الحجرات آیت ۴) ترجمہ: بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں اور اے خلیفۂ وقت! ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت وعزت اور توقیر وتعظیم بعد از وصال ظاہری ایسے ہی لازم وضروری ہے جیسے آپ کی حیات دنیویہ میں تھی۔ خلیفہ ابوجعفر منصور نے امام مالک کی اس گفتگو کے سامنے سر تسلیم جھکادیا اورعرض کرنے لگا اے امام مالک! یہ ارشاد فرمائیے کہ میں جب دعا مانگوں تو چہرہ کس طرف کروں؟ روضۂ اقدس کی طرف یا کعبہ کی طرف۔ امام مالک نے فرمایا آپ اپنا رخ اس ذات اقدس کی طرف سے کیوں موڑتے ہیں جوقیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے اور آپ کے جد امجد سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے وسیلہ ہیں؟ اس لیے آپ بوقت دعا اپنا چہرہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف کریں اور کعبہ کی طرف پشت کریں۔ اللہ تعالیٰ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت آپ کے حق میں قبول فرمائے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدواللہ تواباً رحیماً‘‘ (سورۃ النساء آیت ۶۴) اس واقعے کو حضرت امام قاضی عیاض مالکی اندلسی نے اپنی کتاب ’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ۲؍۴۱ میں، امام قسطلانی نے ’’مواہب لدنیہ‘‘ میں، امام ابوالیمن ابن عساکر نے ’’اتحاف الزائر ص:۱۵۳میں، امام عزبن جماعہ نے ہدایۃ السالک ۳؍ ۱۳۸ میں نقل کیا۔ امام زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں اس واقعے کا انکار کرنے والوں کا ردکرتے ہوئے فرمایا ’’یہ عجیب سینہ زوری ہے کیونکہ اس واقعے کی روایت امام ابوالحسن علی بن فہر نے اپنی کتاب ’’فضائل مالک‘‘ میں سندِ حسن سے کی ہے۔امام قاضی عیاض مالکی نے ’’کتاب الشفا‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ متعدد ثقہ رواۃ اور معتبر مشائخ سے اس روایت کی تخریج کی ہے تو یہ کہاں سے جھوٹ ہوگیا؟ حالانکہ اس کی سند میں کوئی راوی ’’وضاع‘‘ یا ’’کذاب‘‘ نہیں ہے۔ انتہیٰ کلام الامام الزرقانی۔ امام عز الدین بن جماعۃ اپنی کتاب ہدایۃ السالک ۳؍۲۳ میں فرماتے ہیں ’’اسی طرح اس واقعے کو دو حافظوں نے روایت کیا۔ امام ابن بشکوال نے القربۃ الیٰ رب العالمین بالصلوۃ علیٰ سید المرسلین میں اور امام قاضی عیاض مالکی نے کتاب الشفامیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ اس شخص کی بات قابل توجہ نہیں جس نے خواہش نفس کی اتباع میں یہ قول کیا کہ امام مالک کا یہ واقعہ ’’موضوع‘‘ ہے اس کی خواہش نفس نے اسے ہلاک کردیا۔ انتہیٰ کلام الامام عز بن جماعۃ امام خفا جینسیم الریاض شرح الشفا ۳؍۳۹۸ میں فرماتے ہیں: امام قاضی عیاض مالکی کی بھلائی کے لیے ہے انہوں نے اس واقعہ کو ’’سندصحیح‘‘ سے بیان کیا ہے کہ میں نے یہ واقعہ اپنے متعدد اساتذہ سے سنا ہے۔ انتہیٰ کلام الامام خفاجی زیر بحث مسئلہ میں دیوبندی مسلک کا نظریہ اور موقف واضح کردینا مناسب ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز دیوبندی پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی کا نظریہ یہ ہے کہ ’’مواہب لدنیہ میں بہ سند امام ابو منصور صباغ اورابن النجار اور ابن عساکر اورابن الجوزی رحمہم اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیارت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیر الرسل! اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے ’’ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا اللہ واستغفرلہم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیماً‘‘ اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے اور اس محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوئی ہے۔ غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں پس حجت ہوگیا۔ (نشر الطیب فی مولد سید الحبیب، ص: ۲۵۴) مولانا قاسم نانوتوی دیوبندی بانیِ دارالعلوم دیوبند اس آیت کریمہ کے بعد لکھتے ہیں: ’’کیوںکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہے آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں اور تخصیص ہوتو کیوںکر ہوآپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اوراستغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں‘‘ (آب حیات، ص: ۴۰) مفتی محمد شفیع دیوبندی پاکستانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت اگر چہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اورآپ اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضۂ اقدس پر حاضری اسی کے حکم میں ہے‘‘ ۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے عتبی کی مذکور الصدر حکایت بیان کی ہے۔ (تفسیر معارف القرآن، جلد دوم، ص:۴۶۰۔ ۴۵۹، مطبوعہ ادارۃ المعارف، کراچی) معروف دیوبندی عالم مولانا محمد سرفراز گکھڑوی پاکستانی لکھتے ہیں: ’’عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اورمورخین نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے اسی طرح دیگر متعدد علمائے کرام نے قدیماً وحدیثاً اس کو نقل کیا ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی امام عتبی کا واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں ’’پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے‘‘ (اعلاء السنن، ج۱۰؍ ص۲۳۰) ان اکابرین امت، علمائے کرام، محدثین عظام اورائمہ اعلام کے بیان سے معلوم ہوا کہ روضۂ اقدس پر حاضر ہوکر شفاعت ومغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے۔ امت مسلمہ کے تمام علما وائمہ کا یہی موقف ہے اور یہی اعتقاد ہے اور عملی طورسے بھی ثابت ہے بلکہ امام تقی الدین سبکی شفاء السقام میں رقم طراز ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے اور امام عتبی کا واقعہ خیر القرون میں ہوا مگر کسی سے انکار ثابت نہیں جو اس کے صحیح ہونے پرایک واضح دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو روضۂ اقدس کی زیارت نصیب فرمائے اور آپ کی شفاعت ان تمام مومنین کو نصیب فرمائے جو اس آیت کریمہ کو تاقیامت حق وثابت مانتے ہیں۔ آمین بجاہ حبیبہ الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم۔  

  • Writer
  • Tauhid Ahmad Tarablusi
Feedback Form