Feedback submitted successfully!
مطالعہ کی اہمیت

مطالعہ کی اہمیت

  • مقالے
    • Writer
    • محمد آصف رضا اشرفی
  •  محمد آصف رضا اشرفی

مطالعہ کی اہمیت

محمد آصف رضا اشرفی (متعلم جامعہ غوثیہ نجم العلوم ،ممبئی)

علم ایک نایاب دولت ہے، جوانسان کی امتیازی  و بنیادی ضرورت ہے، جس کے ذریعہ انسان خدا کی شناخت کرتا ہے، راہ مستقیم کو پاتا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتاہے۔
    علم کی فضیلت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ اللہ رب العزت نے آغازِ وحی میں سب سے پہلا لفظ جو نبی پاک ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا، وہ ﴿اقْرَأْ﴾ تھا،یعنی اس آیت کے ذریعہ اللہ رب العزت انسانوں کو تعلیم کے زیور سے اپنی زندگی کو آراستہ کرنے کا حکم دے رہا ہے۔
    اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ نے علم کو دنیا کی سب سے بہتر چیز قراردیا ہے، یہاں تک کہ ذکر و اذکار سے بھی، اس لیے کہ ایک عالم سو عابدوں سے افضل ہے، کیوں کہ عابد صرف اپنی دنیا و آخرت کوسنوارتا ہے، مگر ایک عالم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی راہ مستقیم پر گامزن کرتا ہے، خود بھی شریعت کی پاسداری کرتا ہے، دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتاہے۔
    علم میں اضافہ اسی وقت ہو سکتاہے، جب کہ مطالعہ ہو، کیوں کہ مطالعہ ہی فکر و دانش کی پہلی سیڑھی ہے، جو انسان کو دین و دنیا کی بلندیوں پر فائز کرتا ہے اور تعلیم علم اور وسعتوں میں اضافہ کرتا ہے ۔
    مطالعۂ کتب علم حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے، کیوں کہ وسیع ودقیق مطالعہ کے ذریعہ انسان علم میں تکمیل فہم کو حاصل کر سکتا ہے، جس طرح بغیر غذا کے جسم کم زور ہو جاتا ہے، اسی طرح بغیر مطالعہ کے عقل و شعور میں کمی واقع ہوتی ہے، ہر انسان کو چاہیے کہ مطالعہ کی عادت بنائے اور کتاب کو سمجھنے کی قوت وصلاحیت پید ا کرے۔
    کیوں کہ جو بھی طالب علم استاذ کے پڑھانے سے پہلے کتاب میں غور و فکر کرتا ہے، استاذ کا پڑھایا ہوا، اس کے دل و دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے ذہنی طاقت میں اضافہ ہو تا ہے، پھر دھیرے دھیرے اس محنت کا نتیجہ یہ ملتا ہے کہ اس کے ذہنی طاقت میں اس قدر اضافہ ہوتا ہے کہ کامیابی اس کے قدم چومتی ہے ۔
    مطالعہ کرنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ مطالعہ کا جو مقصد ہے، وہ ان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ہے :
(۱) مطالعہ کرنے کے لیے ایسی نشست گاہ تلاش کریں، جہاں نہ کوئی شور وغل ہو اور نہ ہی کوئی ایسی چیز ہو، جو آپ کے ذہن کو منتشر کرے۔
(۲) جس کتاب کو پڑھیں، اس پر مکمل توجہ ہو ۔
(۳) شکم سیر ہو کر ہرگز مطالعہ نہ کریں ۔
(۴) زمین یا چٹائی وغیر ہ پر بیٹھ کر مطالعہ کریں، ٹیک لگا کر ہرگز مطالعہ نہ کریں ۔
(۵) جس کتاب کو پڑھنا ہو، اس کا مکمل طور پر جائزہ لیں، ایسانہ ہو کہ تھوڑا شروع سے پڑھیں اور تھوڑا آخر سے ۔
    (۶) دوران ِمطالعہ کاپی قلم اپنے پاس رکھیں ،تاکہ نئے الفاظ اور مؤثر جملے اپنی کاپی میں اتار سکیں، ایسا کرنے سے کچھ ہی عرصہ میں آپ کے پا س بہت سا نیا مواد جمع ہوجائے گا، جو آپ کی تحریر کو کامیاب بنانے میں آپ کی مدد دے گا ۔
    بے شمار ایسے بزرگ گزے ہیں، جنھوں نے مطالعہ کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا تھا، جس کا اندازہ ان کی تصانیف سے لگا یا جاسکتا ہے اور وہ اسی کتب بینی کی وجہ سے عالمِ اسلام میں مثل قمر چمک اٹھے۔
    امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر شاگرد امام مزنی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذکی کتاب الرسالہ کا پچاس مرتبہ مطالعہ کیا، آپ خود ناقل ہیں کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ کے مطالعہ سے نئے نئے فوائد حاصل ہوتے گئے۔
    علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ: ’’میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی، جب میری نظر کسی نئی پر پڑتی، مجھے ایسا لگتا کہ میرے ہاتھ کوئی نیا خزانہ لگ گیا ہے‘‘۔
    آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر میں یہ کہوں کہ میں نے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا تو بہت زیادہ معلوم ہوگا‘‘۔
    آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات، ان کے اخلاق وکردار اور ان کی عالی ہمتی، قوت حافظہ اور علوم ِنادرہ کا اتناعلم حاصل ہوا، جو ان کتابوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔
    آپ مزید فرماتے ہیں: ’’میں نے مدرسۂ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا، جس میں تقریباً چھ ہزار کتابیں تھیں‘‘۔
    اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے میں کتب حنفیہ، کتب عبدالوہاب، کتب الحمیدیہ اور کتب ابو محمد جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے، میں نے سبھی کا مطالعہ کر ڈالا۔
    ہمارے اسلاف ِکرام کو علم سیکھنے کا اس قدرشوق تھا، با وجودیہ کہ ان کے پاس نہ لائٹ تھی، نہ ہی شکم سیر ہوکر کھانا میسر تھا، نہ ہی دیگر ضروریات کی چیزیں مہیا تھی، پھر بھی انھوں نے اپنے شب وروز کو مطالعہ میں صرف کردیا۔
     مگر افسوس !آج ہم میں مطالعہ کا شوق بالکل ختم ہو گیا، ہر قسم کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود ہم کتب بینی سے بہت دور نظر آتے ہیں، اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کو لغو کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں اور ہمارے یہاں وقت کی بے قدری کثرت سے ہوتی ہے، کاش کہ ہم میں بھی مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا ہو جائے۔
    دعا ہےکہ مولیٰ کریم یہ سطور ہمارے جمود کو توڑ دے اور ہم سبھی مطالعہ کو حرز جاں بنا لیں۔
n n

Feedback Form