مسائل قربانی
’’قربانی‘‘ مخصوص جانور کا مخصوص دن میں بہ نیت قربانی ذبح کرنا قربانی ہے، کبھی اس جانور کو بھی أضحیہ اور قربانی کہتے ہیں، جو ذبح کیا جاتا ہے ۔
مسئلہ : ایک شخص صاحب نصاب ہے، مگر ایامِ قربانی گزر گئے اور وہ قربانی نہیں کر سکا، اس کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : شخص مذکورہ اگر قربانی کا جانور خرید چکا تھا تو اسی کو صدقہ کر دے اور اگر نہیں خریدا تھا تو ایک بکری کی قیمت صدقہ کرنا اس پر واجب ہے، ایسا نہ کرے گاتو گنہگار ہوگا۔[رد المختار، جلد پنجم، ص: ۲۰۴ ]
مسئلہ : ایک شخص ایسا ہے، جس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ نصاب کو پہنچ سکے، لیکن اس کی کھیتی کی زمین اتنی ہے کہ اگر اس کو بیچ ڈالے تو نصاب سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے، ایسے شخص کو مالکِ نصاب سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اس پر زکات یا قربانی واجب ہے یا نہیں ؟
جواب ـ ـ : جس شخص کے پاس کھیتی کی زمین اتنی ہے کہ اگر اسے بیچ ڈالے تو نصاب سے کئی گنا زیادہ ہو جائے گا تو وہ شخص مالک نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ : ہندہ نے قربانی کے لیے ایک گاے خریدی تھی، قربانی کے قبل بچہ دے دی، ہندہ نے گاے کی قربانی کر دی اور بچہ کو اگلے سال قربانی کے لیے رکھ لیا ، کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟
جواب : اس بچے کو گاے کے ساتھ زندہ صدقہ کر دے، یعنی کسی فقیر مسلم کو دے دے۔ [ہندیہ ] یہاں سے ظاہر ہے کہ سال آئندہ کہ قربانی اسے ذبح کرنے سے ادا نہ ہو گی، بلکہ دوسرے جانور کی قربانی لازم ہو گی اور اسے یعنی اس مذبوح کو صدقہ کرنا لازم ہو گا اور ذبح سے جس قدر قیمت میں کمی ہوئی، اس کا تاوان بھی دینا ہو گا ۔
مسئلہ : قربانی واجب ہونے کی چار شرائط یہ ہیں: (۱) اسلام (۲) اقامت (۳) توانگری(۴) حریت۔
مسئلہ : مسافر پر قربانی واجب نہیں، مگر نفل کے طور پر کرے تو کر سکتاہے، ثواب پائے گا، حج کرنے والے جو مسافر ہوں، ان پر قربانی واجب نہیں اور مقیم ہو تو واجب ہے، جیسے کہ مکہ کے رہنے والے حج کریں، چوں کہ یہ مسافر نہیں ہیں، ان پر واجب ہے ۔
مسئلہ : شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے لیے جووقت مقرر ہے، اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا وجوب کے لیے کافی ہے، مثلاً ایک شخص ابتداے وقت قربانی میں کافر تھا، پھر مسلمان ہوگیا اور ابھی قربانی کا وقت باقی ہے، اس پر قربانی واجب ہے، جب کہ دوسرے شرائط بھی پائے جائیں ۔
مسئلہ : قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے، جب وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے، قربانی واجب ہوگئی اور اس کا رکن ان مخصوص جانوروں میں سےکسی کو قربانی کی نیت سےذبح کرنا ہے، قربانی کی نیت سے دوسرے جانور مثلاً مرغ کو ذبح کرنا ناجائز ہے ۔
مسئلہ : ایک شخص کے یہاں دو سو درہم تھے، سال پورا ہوا، ان میں سے پانچ درہم زکات میں دے دیا، ایک سو پچانوے باقی رہے، اب قربانی کا دن آیا تو قربانی واجب ہے اور اگر اپنی ضروریات میں خرچ کرتا تو قربانی نہ ہوتی ۔
مسئلہ : بالغ لڑکوں یا بی بی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت حاصل کرے، بغیر ان کے کہے اگر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہ ہوا اور نابالغ کی طرف سے اگر چہ واجب نہیں ہے، مگر کر دینا بہتر ہے ۔
مسئلہ: قربانی کے وقت قربانی کرنا ہی لازم ہے، کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی، مثلا بجاے قربانی اس نے بکری، یا اس کی قیمت صدقہ کر دی، یہ نہ کافی ہے، اس میں نیابت ہوسکتی ہے، یعنی خود کرنا ضروری نہیں، بلکہ دوسرے کو اجازت دے دی، اس نے کر دی، یہ ہو سکتا ہے۔
مسئلہ : شرکت میں گاے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے، اندازہ سے تقسیم نہ ہو، کیوں کہ ہو سکتا ہے، کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ نا جائز ہے۔
یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہو گا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لیے جائز کر دے گا، کہہ دے گا کہ اگر زائد پہنچ گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو اس کے معاف کرنے کا حق نہیں ۔
مسئلہ : قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کا صدقہ بھی نہیں کیا، یہاں تک کہ دوسری عید الاضحی آگئی، اب یہ چاہتاہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کر لے، یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔
مسئلہ : جس جانور کی قربانی واجب تھی، ایام نحر گزرنے کے بعد اسے بیچ ڈالا تو ثمن کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
مسئلہ : شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہو چکے، لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی اور دیہات میں کیوں کہ نمازِ عید نہیں ہے، یہاں طلوع فجر سے ہی قربانی ہو سکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے ۔
مسئلہ ـ : اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہو تی ہو تو پہلی جگہ نماز ہو چکنے کے بعد قربانی جائز ہے، یعنی یہ ضروری نہیں کہ عید گاہ میں نماز ہو جائے، جب ہی قربانی کی جائے، بلکہ کسی مسجد میں ہو گئی اور عید گاہ میں نہ ہوئی، جب بھی ہو سکتی ہے ۔
قربانی کے جانور کے احکام
مسئلہ : قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں: (۱)اونٹ (۲) گاے (۳) بکری۔ ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں، سب داخل ہیں، نر اور مادہ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے، یعنی سب کی قربانی ہو سکتی ہے، بھینس گاے میں شمار ہے، اس کی بھی قربانی ہو سکتی ہے، بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہے، ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہے ۔
مسئلہ : قربانی کے جانور کی عمر یہ ہو نی چاہیے: اونٹ پانچ سال کا، گاے دوسال کی، بکری ایک سال کی، اس سے عمر کم ہے تو قربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز ہے، بلکہ افضل ہے ۔ ہاں! دنبہ یا بھیڑکا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کامعلوم ہو تا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ : جس کے دانت نہ ہوں، جس کے تھن کٹے ہوں، یا خشک ہوں، اس کی قربانی ناجائز ہے، بکری میں ایک کا خشک ہو نا نا جائز ہے اور گاے اور بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے، جس کی ناک کٹی ہو، یا علاج کے ذریعہ اس کا دودھ خشک کر دیا ہو اور خنثی جانور یعنی جس میں نر ومادہ دونوں کی علامتیں ہوں اور جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو، ان سب کی قربانی نا جائز ہے ۔
مسئلہ : قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا، جس کی وجہ سے عیب پیدا ہو گیا، یہ عیب مضر نہیں، یعنی قربانی ہو جائے گی ۔
مسئلہ : بھیڑ یا دنبہ کی اُون کاٹ لی گئی ہو،اس کی قربانی جائز ہے اور جس جانور کا ایک پائوں کاٹ لیا گیا ہو، اس کی قربانی نا جائز ہے ۔