فلسفۂ قربانی
از: اختر رضا نوری
الحمد لولیہ، والصلاۃ والسلام علی حبیبہ، وعلی آلہ، وصحبہ، ومحبیہ، ومتبعیہ.
اما بعد!
’’قربانی‘‘ یہ اردوکا لفظ ہے، جس کا معنی ہے، وہ جانور جو خدا کی راہ میں ذبح کیا جائے، اِس کو عربی زبان میں ’’قربان‘‘کہتے ہیں۔لفظِ ’’قربان‘‘ قرب سے بنا ہے، جس کا معنی ہے قریب ہونا، بے شک قربانی اللہ عزوجل سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ۔
مشکاۃ شریف (جلد اول، ص: ۱۲۸) میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ نے عرض کی:
’’يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذِهِ الأَضَاحِيُّ؟‘‘
قَالَ: ’’سُنَّةُ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ‘‘.
قَالُوا: ’’فَمَا لَنَا فِيْهَا يَا رَسُولَ اللہِ؟‘‘
قَالَ: ’’بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ‘‘.
قَالُوا: ’’فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللہِ؟‘‘
قَالَ: ’’بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ‘‘.
ترجمہ: ’’یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
انھوںنے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بال کے برابر نیکی‘‘۔
صحابہ نے عرض کیا: ’’بھیڑ کے بال ؟‘‘
آ پ نے فرمایا: ’’بھیڑ کے ہر بال کے برابر نیکی ہے۔
یادرکھیں! عبادت کی کئی قسمیں ہیں، اُن سے ایک قسم عبادت مالی ہے، پھر اِس عبادتِ مالی کی دو قسمیں ہیں:
(۱) بطریق تملیک (یعنی: اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی کو کوئی چیز دے دینا ): جیسے صدقہ وزکات۔
(۲) بطریق اِتلاف (یعنی: اللہ کی رضا کے لیے کسی چیز کو ہلاک کر دینا ): جیسے غلام آزاد کرنا۔
قربانی ایسی عظیم عبادت ہے، جس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں، اِس میں جانور کا خون بہایا جاتا ہے، یہ اتلاف ہے اور اِس کے گوشت کو صدقہ کیا جاتا ہے، یہ تملیک ہے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، کیا قربانی صرف اُمت محمدیہ ﷺپر واجب ہوئی ہے؟ یا پہلے جو امتیں تھیں، اُن پر بھی واجب تھی؟
اِس کو قرآن پاک سے سمجھتے ہیں، اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ﴾. [سورۂ حج: ۳۴)
ترجمہ کنزلایمان: ’’اور ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک قربا نی مقر ر فرمائی کہ اللہ کا نام لے، اُس کے دیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر، تمھارا معبود ایک معبود ہے‘‘۔
اس آیتِ کریمہ سے پتہ چلا کہ ہر اُمت کے لیے ابتداے آدمیت سے آج تک، بلکہ تا قیامت جتنے بھی اہلِ ایمان ہوئے، یا ہوں گے، یہ عبادت ہر شریعت میں، ہر امت پر واجب کی گئی، تاکہ اہل ایمان اپنے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے حلال کیے ہوئے چوپایوں کو اس کے نام پر ذبح کریں۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ سے اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ کوئی بھی امت حکم قربانی سے بری نہیں ہے، اگر چہ قربا نی کی تاریخیں اور طریقے ہر شریعت میں مختلف ہوتی رہی ہیں۔
سابقہ شرائع اور شریعت محمدیہ میں قربانی کی ادائیگی میں دوبنیادی فرق ہیں، ایک یہ کہ پہلی امتیں قربا نی کے گوشت کو کھا نہیں سکتی تھیں، بس جانور پر چھری چلائی اور کسی اونچی پہاڑی پر جانور کو مع کھا ل رکھ دیا کرتے، ذبحِ مقبول کو آگ کھا جاتی اور نا مقبول پڑی رہتی، سڑتی گلتی رہتی، یہاں تک کہ درندہ جانور بھی اسے نہ کھا تے۔
مگر اللہ رب العزت نے اُمت محمدیہ پریہ انعامِ عظیم فرمایاکہ جب کوئی سچے دل سے خالصا لوجہ اللہ جانور ذبح کرتا ہے، اس جانور کا خون زمین پر گرے، اس سے پہلے اللہ رب العزت اس کی قربا نی قبول فرما لیتا ہے۔
یہ بھی اللہ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے قربانی کے گوشت کو کھانےکی اجازت فرمائی ہے۔
لہٰذامسلمانوں کو چاہیے کہ صدق دل سے اللہ کی رضا کے لیے قربانی کریں، کیوں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں، نہ ان کے خون پہنچتے ہیں، اگر کوئی چیز پہنچتی ہے، وہ تقوی اور خلوص نیت ہے۔
اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾. [سورۂ حج: ۳۷]
ترجمہ کنزالایمان: ’’اللہ کو ہرگز نہ اُن کے گوشت پہنچتے ہیں، نہ اُن کے خون۔ ہاں! تمھاری پرہیز گاری اُس تک باریاب ہوتی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیںہر اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جس میں اس کی رضا شامل ہو، آمین، یا رب العالمین۔